کوئی نہیں تھاتیرے حق میں بولنے والا

اپنے 28نومبر کے کالم میں گزارش کی تھی کہ یہ ڈرامہ بازی بند کی جائے اور لوگوں کو نئے نئے لالی پاپ تھمانے سے بچوں کی طرح ورغلانے کی کوشش کرکے بے وقوف نہ بنایا جائے ‘ محولہ کالم میں وزیر اعلیٰ محمود خان نے سوئی گیس حکام کی”سرزنش” کرتے ہوئے پشاور میں گیس پریشر کا مسئلہ حل کیا جائے اور متعلقہ حکام نے گزشتہ برسوں کی طرز پر یہی بہانہ تراشا تھا کہ کچھ علاقوں میں چھوٹے قطر کی پائپ لائن تبدیل کرنے کی وجہ سے تین چار روز کے اندر یہ مسئلہ حل کر دیا جائے گا ‘ مگر چونکہ انگریزی زبان میں اس صورتحال کوLame excuse کہا جاتا ہے اس لئے ہم نے سابقہ تجربات کی روشنی میں اسے عوام کے ساتھ ڈرامہ بازی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بہانے نہیں چلنے کے ‘ اور ہوا بھی وہی کہ27نومبر کو ہونے والے اجلاس کو دم تحریر نو دن گزر چکے ہیں مگر نہ تو شہر کے کسی حصے سے پائپوں کی تبدیلی کی خبر سامنے آئی ہے ‘ نہ گیس پریشر کا مسئلہ حل ہوا ہے ‘ مگر کوئی بھی اسی صورتحال کا نوٹس لے کر اصلاح احوال کی کوشش کرنے کو تیار اس لئے نہیں ہے کہ سرکار کو یہ خوف دامن گیر ہوتا ہے کہ اگر عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو سخت سردی میں بھی جذبات برانگیختہ ہوسکتے ہیں یعنی بقول مرزا محمود سرحدی مرحوم
جھوٹ کہتا ہوں اور بے کھٹکے
کون سچ کہہ کے دار پرلٹکے
کیا کہیں کیسے آسماں سے گرے
اور کیوں کر کھجور میں اٹکے
اس مسئلے کا ایک پہلوتو یہ ضرور ہے کہ بعض جگہوں پر پائپ لائن کا قطر چھوٹا ہے اور علاقے کی ضروریات پورا کرنے کے قابل نہیں ہے ‘ جبکہ پچھلے برسوں میں پائپ لائن تبدیل بھی کئے جا چکے ہیں جس کاثبوت یہ ہے کہ بی آر ٹی کی تعمیر کے دوران پورے شہر کے درمیان میگا سائز کے پائپ لائن کی تبدیلی کی وجہ سے کئی کئی روز تک گیس سپلائی معطل رکھی گئی تھی ‘ اس لئے اب یہ بہانہ نہیں چلنے کا’ دوسرا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ کم پریشر جان بوجھ کر شہر پر مسلط کیا جارہا ہے جس کا”یار لوگوں” نے یہ حل ڈھونڈ نکالا ہے کہ نانبائیوں سے لیکر عام گھریلو صارفین بھی کمپریسرکا استعمال کرکے ”ہمسایوں” کے حق پر ڈاکہ زنی کرتے ہیں ‘ انہیں نہ خدا کا خوف ہے نہ حکومتی قوانین کا ‘ اس ضمن میں ا گرچہ سرکاری طور پر اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے اس حرکت کے مرتکب افراد کو سرزنش بھی کی جارہی ہے مگر ”گیس پر قبضہ گروپ” کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ تو اس کا آخرعلاج کیا ہوگا ‘ماسوائے اس کے کہ آئین کے تقاضوں کے عین مطابق صوبے کی اپنی پیداکردہ قدرتی گیس پر ”ناجائز قبضہ ” ختم کرکے صوبے کوپوری گیس فراہم کی جائے اور اوپر سے لیکر نیچے تک ”جھوٹ کہہ کے” عوام کو مزید بے وقوف بنانے سے احتراز کیا جائے’ کیونکہ یہ پبلک ہے’ سب جانتی ہے ‘ بقول ڈاکٹر نذیر تبسم
نذیرشہر شناساں میں برسر منبر
کوئی نہیں تھا ترے حق میں بولنے والا
بات پشاور کی ہو رہی ہے جو میری سب سے بڑی کمزور ہے کیونکہ یہ میرا جنم بھومی ہے اس لئے اس ناتے سیاسیاں گزشتہ کئی دہائیوں سے جو سلوک روا رکھے ہوئے ہیں وہ اس کیفیت کی غماض ہے کہ بقول فلمی شاعر دل ٹوٹے ٹوٹے ہوگیا ‘ کی کریئیں ‘ کی کریئیں ‘ گزشتہ کئی ادوار میں مختلف حکومتوں نے پشاور کے عوام کے دلوں پر چھریاں چلا کر پشاور کو”پھولوں کا شہر” بنانے کے دعوے تو ضرور کئے مگر اس نعرے کی آڑ میں الٹا اسے کنکریٹ کے شہر میں تبدیل کرکے ماحولیات کو تباہی اور بربادی سے دوچار کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ‘یہ تلخ یادیں اس لئے سامنے آئیں کہ آج پھر اخبارات میںاے این پی نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے جو منشور پیش کیا ہے ‘ اس میں ایک بار پھر”خپل پیخور گل پیخور” کے ساتھ ساتھ ایک نیا نعرہ”خپل پیخور ‘ محفوظ پیخور” بھی دے کر میری رگ کمزوری پر کاری ضرب لگائی ہے’ پشاور محفوظ ہے ‘ رہے گا ‘ یا نہیں ‘ اس کو فی الحال ایک طرف رکھتے ہوئے پشاور کے قدیم نام ”گلابوں کا شہر” کا تذکرہ کرنا ضروری ہے ‘ پشاور کو یہ نام مغل شہنشاہ بابر نے یہاں اپنے قیام کے دوران دیا تھا کیونکہ شہر کے اطراف میں پھولوں کے باغات خصوصاًگلابوں کے وسیع قطعات تھے جن سے اٹھنے والی بھینی بھینی مہک دل و دماغ کو معطر کر دیتی تھی ‘ بہرحال امتداد زمانہ سے یہ شہر اپنی ہیئت تبدیل کرتا چلا گیا ‘ پھر بھی بہت سے رقبے پر گلاب کے باغات قائم تھے ‘ اور یہاں سے موسم بہار میں جوپھول نہ صرف اندرون شہر بلکہ بقول ڈاکٹر ظہور احمد اعوان مرحوم یہ گلاب ہمدرد دواخانہ دہلی تک جاتے تھے جہاں وہ ان سے خوشبویات ‘ روح افزاء اور دیگر مقویات بناتے رہتے ‘ یہ بات انہیں حکیم سعید کے بڑے بھائی حکیم نے ان کے قیام دہلی کے موقع پر بتائی تھی ‘ خیر جان دیجئے ‘ بات ہو رہی تھی شہر گلاب کو کنکریٹ میں تبدیل کرنے کی ‘ ان سابق حکومتوں نے ہر بار دعوے تو گلابوں کے شہر کی بحالی کے کئے مگر ایک صوبائی حکومت کے وزیر بلدیات نے ”ازراہ کرم و مہربانی” پشاور کے جی ٹی روڈ کو سبزے سے پاک کرتے ہوئے فلائی اوورز پرکاغذ کے پھولوں کے گلدان لٹکا کر شہریوں کا مذاق اڑایا’ یعنی بقول سجاد بابر مرحوم
جب سے دیکھا ہے کہ گلدان میں انگارے ہیں
پھول ہاتھوں کے بھی دیوار پہ دے مارے ہیں
اس لئے خدا کے لئے پشاور کو معاف کرکے اس قسم کے دعوے نہ ہی کریں تو ہم پر احسان ہوگا ‘اور ہم یہ احسان جو نہ کرتے تو یہ احسان ہوتا۔

مزید پڑھیں:  شہر کے بڑے ہسپتالوں میں ڈسپلن کا فقدان