امریکا سے کنارہ کشی

امریکا سے کنارہ کشی

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ غلطیاں امریکا نے کیں لیکن قربانی کا بکرا پاکستان کو بنایا گیا۔لاہور میں ایک تقریب سے خطاب میں وزیراعظم کا کہنا تھاکہ قربانیوں کا کریڈٹ دینے کے بجائے مغربی میڈیا نے الٹا پاکستان کو ڈبل گیم کھیلنے کے الزام میں بدنام کیا، امریکا کی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا۔ ان کا کہنا تھاکہ افغانستان کی جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے پرسب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا اور سارا نزلہ بھی پاکستان پر گرا۔وزیراعظم نے افغانستان کی جنگ میں امریکا کا اتحادی بننے کو پاکستان کا تاریک دور قرار دیا اور کہاکہ شرم کا مقام تھا کہ ہم ساتھ بھی دے رہے تھے اور اتحادی ہم پر بمباری بھی کررہا تھا، ہمارے لوگ بھی مررہے تھے اور قصوروار بھی ہمیں ٹھہرایا جارہا تھا جو نقصان پاکستان نے اٹھایا امداد اس کا چھوٹا سا حصہ بھی نہیں تھی۔وزیراعظم عمران خان کے بیان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان اپنی سمت کلی طور پر تبدیل کر رہا ہے امریکہ سے تعلقات کی نوعیت اب ماضی سے بہت مختلف ہے اس کا اظہار قبل ازیں بھی مختلف فیصلوں سے سامنے آچکا ہے بالآخر پاکستان یکسوئی کے ساتھ خطے کے ممالک سے تعلقات استوار کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے ۔امر واقع یہ ہے کہ امریکہ کو جہاں بھی موقع ملتا رہا ہے پاکستان کے تعاون کے باوجود بلکہ ان شعبوں میں جس میں سوویت یونین سے مخاصمت کے دوران دونوں ممالک نے مشترکہ طور پر کام کیا جب بھی موقع ملا انہی عناصر ہی کی بنا پرامریکا نے پاکستان کو مطعون کرتے ہوئے ذرا بھی ماضی کا خیال نہ کیا۔امریکا کسی قسم کی رعایت کو تیار نہیں اور پاکستان سے بدستور تعاون کا متقاضی ہے جو اب بدلتے حالات میں ممکن نہیں۔ امریکا کا بھارت کی طرف جھکائو بڑھ چکا ہے یہی وجہ ہے کہ مذہبی آزادیوں کے حوالے سے شہریوں سے ریاست اور انتہا پسند گروہوں کے نامناسب برتائو اور پرتشدد واقعات میں بھارت سرفہرست ہے۔ اس ضمن تیار ہوئی سالانہ رپورٹ میں بھارت ابتدائی نمبروں میں شامل تھا۔ مگر حیران کن طور پر امریکی دفتر خارجہ نے بھارت کا نام فہرست نکلوادیا اور اپنی توپوں رخ پاکستان کی جانب کرتے ہوئے جو الزام تراشی کی حالانکہ ماضی میں رونما ہونے والے چند افسوسناک واقعات میں ملوث افراد کے خلاف قوانین کے مطابق تادیبی کارروائی کر کے پاکستانی نے عملی طور پر ثابت بھی کیا کہ انتہا پسندوں کو سرکاری سرپرستی حاصل نہیں ہے اور یہ کہ پاکستانی ریاست صنفی مساوات اور مذہبی آزادیوں کے حوالے سے خاصی حساس ہے۔دنیا اور خصوصا ایشیا کے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے امریکہ نے ہمیشہ بھارت کے غیرذمہ دارانہ طرزعمل سے چشم پوشی کی اس متعدد وجوہات ہیں ان میں سے اہم ترین وجہ امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سرمایہ کاری اور بھارت کو چین اور پاکستان کے خلاف سیاسی کردار دینا ہے۔جنوبی ایشیا کے حوالے سے امریکہ کی کوئی بھی پالیسی غیرجانبدارانہ نہیں بلکہ اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ بھارت کو امن و انسانیت کے محافظ کے طور پر پیش کرے حالانکہ امن و انسانیت کے ساتھ بھارت میں مودی سرکار کی سرپرستی میں جو سلوک ہورہا ہے وہ ہر کس و ناکس پر عیاں ہے سوائے بھارت نواز امریکی پالیسی سازوں کے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ امریکی حکام کو بھارت کے زیرقبضہ مقبوضہ کشمیر میں سکیورٹی فورسز کی سرپرستی میںمسلمانوں کا قتل دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی کشمیری مسلمانوں کا یہ موقف سنائی دیتا ہے کہ ہندو انتہا پسند ان کی جائیدادوں پر قبضہ کرناچاہتے ہیں۔امریکا ہی نیفلسطین میں یہودیوں کو دنیا بھر سے بلاکر انہیں وہاں آباد کیا جبکہ فلسطین کے اپنے باشندوں کو اپنے ہی ملک میں بے سر و سامان چھوڑ دیا۔ ان پر مسلسل جنگیں مسلط کیں جس سے وہ اپنے ہی ملک کو چھوڑ کر شام، اردن اور لبنان ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے شام کو بھی جنگ کا میدان بنادیا۔ یوں وہ بے یارو مددگار فلسطینی وہاں سے بھی ہجرت کرکے کہیں اور ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔اسی طرح امریکا ہی افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر لاکھوں بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ آپریشن ”اینڈیورنگ فریڈم” یعنی پائیدار آزادی کے نام سے2001میں کابل اور افغانستان کے دیگر شہروں پر اتنے بڑے پیمانے پر بمباری کی گئی کہ کابل شہر میں لاشوں کے سوا اور کچھ نا دکھائی دیا۔ جن کے خاتمے کے لئے آپریشن شروع کیاگیا وہ لوگ نا ہی اس آپریشن میں مارے گئے اور نا ہی اگلے20 سال تک انہیں شکست دی جا سکی آخر میں انہی کو حکومت سونپ کر چلے گئے جن کے خلاف سینہ تان کران کو پتھر کے دور میں لے جانے کی دھمکی دی گئی تھی۔عالمی سیاست کے باہمی مفادات اور جنوبی ایشیا میں چین اور پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے لئے بھارت قدم قدم پر امریکہ کا ہمنوا و مددگار ہے۔یہ وہ چند حقائق ہیں جس کے باعث پاکستان کوبالاخر امریکا سے تعلقات پر نظر ثانی پر مجبور ہونا پڑا ہے علاوہ ازیں ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ نے کسی بھی مرحلہ پر امن و انسانیت کے لئے پاکستان کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا الٹا اس کے پالیسی سازوں نے پاکستان کو بدنام کرنے کے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔امریکا کے اس دہرے کردار کے باعث اب پاکستان کے لئے پالیسی میں تبدیلی لائے بغیر چارہ نہیں رہ گیا ہے۔

مزید پڑھیں:  صوبے کے مفادات کا کسی کو خیال بھی ہے