قومی حکومت کے قیام کی تجویز اور اسکے تقاضے

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف نے ملک میں پانچ برس کے لئے قومی حکومت قائم کرنے کی تجویز دی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں بننے والی حکومت ایک منفرد تجربہ ہوگا جو ایک طرح سے قومی حکومت ہوگی اور اس میں تمام سیاسی رنگ بھی موجود ہوں گے۔نئی حکومت سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم اس پہلے مرحلے میں کامیاب ہوئے تو ہماری پارٹی اور نواز شریف کا موقف بھی ہے اور ہم سب یکسو ہیں کہ ضروری قانون سازی کرکے الیکشن کی طرف جانا چاہئے لیکن اس فیصلے پر ہمیں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی)، جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) پاکستان،عوامی نیشنل پارٹی(اے این پی)اور دیگر تمام جماعتوں کی مشاورت کی ضرورت ہوگی اور ہم مل کر فیصلہ کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری پارٹی کا موقف ہے کہ ضروری قانون سازی کے فوری بعد نئے انتخابات کی طرف جانا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ میری ذاتی رائے ہے کہ ہمیں پی ٹی آئی کے علاوہ قومی حکومت بنانی چاہئے’ جو شبانہ روز سخت محنت کرے اور پاکستان کے لئے اپنا خون بہائے اور5برس تک اس ملک کے لئے کام کرے۔یکے بعد دیگرے مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں رہیں۔لیکن کوئی بھی حکومت ملکی ترقی اورملک و قوم کو مسائل اور مشکلات سے نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ان حکومتوں سے منفرد اس لئے تھی کہ اس جماعت کو عوام نے احتساب اوربدعنوانی کا حساب اور اس کی روک تھام کے وعدے اور نعرے پر حکمرانی کا حق دیا تھالیکن گزشتہ حکومتوں کی طرح اس حکومت کی کارکردگی بھی خلاف توقع ہی ثابت ہوئی ایسے میں جبکہ ملک کی آمدنی اور قرضوں کی ادائیگی کے لئے درکار رقم میںزیادہ فرق باقی نہیں رہا اور خدانخواستہ ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے خارجہ امور سے متعلق معاملات اور آئی ایم ایف کی شرائط جیسے پیچیدہ اور نازک عوامل بھی توجہ طلب ہیں ایسے میں ایک آخری امید اور تجربے کے طور پر اگرقومی حکومت قائم ہوتی ہے اور ماضی کی حکمران جماعتیں اور گروپ روایتی سیاست ‘ کردار اور مفاد پرستی و بدعنوانی جیسے معاملات کو ایک طرف رکھ کر خلوص کے ساتھ ملک و قوم کو اس بحران سے نکالنے کی سعی کرتے ہیں تواس کیگنجائش ہے۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی جانب سے قومی حکومت کے قیام کی جو تجویز پیش کی گئی ہے اس میں اس امر کا ابہام ہے کہ ان کی تجویز موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ممکنہ کامیابی کے بعد اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے تک کا ہے یا پھر وہ اتفاق رائے کے ساتھ انتخابات کی بجائے کسی فارمولے کے تحت قومی حکومت کے قیام کے خواہاں ہیں اگردیکھا جائے تو اس وقت حکومت کے اتحادیوں اور حزب ا ختلاف کی جماعتوں کے درمیان تقریباً مفاہمت اور باقاعدہ شرکت اقتدار کے فارمولے طے نظر آتے ہیںایسے میں جوبھی حکومت
قائم ہوایک طرح سے قومی حکومت ہی کہلائے گی اب اس کے بعد اس امر کا انحصاران سیاسی جماعتوں کے کردار و عمل ثابت کرے گا کہ وہ چوں چوں کا مربہ اور بھان متی کا کنبہ ہو گا یا واقعی ہی قومی حکومت قائم ہوگی اگرخلوص نیت کے ساتھ ماضی کی غلطیوں کو دہرائے بغیراور مفاد پرستی کو ایک طرف رکھ کر قومی حکومت کا کردار ادا کیا جائے تو یقینا یہ قومی حکومت ہی کہلائے گی اور اگرماضی کی طرح اقتدار اور حکمرانی کے اطوار اختیار کئے گئے تویہ ایک زریں موقع ضائع کرنے کے مترادف ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بہتر یہی ہوگا کہ جملہ سیاسی جماعتیںجس قومی حکومت کی تیاری میںہیںاگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتی ہے اور اقتدار ان کو منتقل ہوتی ہے تو اس ایک سالہ مدت اقتدار کے دوران وہ قوم کو یہ امرباور کرا سکیں کہ وہ عملی طور پر کس امر کے خواہاں ہیں اور ان کا مقصد کیا ہے تو یقینا آمدہ عام ا نتخابات میںقوم کا فیصلہ ان کے حق میں ہو گا اور اگر اس ایک سال کے دوران وہ خود کو قومی حکومت کا اہل ثابت نہ کر سکیں تو پھر عوام جو فیصلہ کریں وہی جمہوری فیصلہ ہوگا۔ہم سمجھتے ہیں کہ قومی حکومت کے قیام کے لئے عام انتخابات ہی کا سہارا لیا جانا زیادہ موزوں ہوگا اور سیاسی جماعتیںجس طرح کا مینڈیٹ حاصل کرکے آئیں گی اس کے مطابق قومی حکومت میں ان کا حصہ طے ہو گا جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کو قومی حکومت میں شامل نہ کرنے کی بات ہے اس کی جہاں دیگر کئی وجوہات ہیں وہاں جمہوری تقاضا بھی ہے کہ حزب اختلاف کا بھی کوئی سیاسی جماعت کردار ادا کرے۔ بہرحال اس امر کاتعین تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے ساتھ ہی مشروط ہے جہاں تک ملکی معاشی حالات ‘ سفارتی تنہائی کے علاوہ اندرونی اور بیرونی مسائل کے حل کا تعلق ہے ان سارے معاملات کے لئے ایک سال بلکہ اس سے بھی کم مدت ہے اس لئے کہ سیاسی جماعتوںکی خواہش اور تیاری جلد انتخابات کی نظر آتی ہے اس لئے قومی حکومت کے قیام کی تجویز پر عملدرآمد اور ایک مکمل مینڈیٹ کے ساتھ مستحکم حکومت قومی حکومت بننے کی صورت ہی میں ممکن نظرآتی ہے انتخابات میں کامیابی کے بعد قومی حکومت قائم کرنے کو اولین ترجیح دینا اکثریتی جماعت کی صوابدید ہوگی اور اگرمخلوط حکومت بھی بنانے کی ضرورت پڑے تو اسے سیاستی ضرورت بنانے کی بجائے قومی شکل دی جائے اور اسی جذبے کے ساتھ حکومت کی جائے تو یہ بھی قومی حکومت ہی کی بہتر صورت ہو گی ۔محولہ تمام عوامل سے قطع نظر یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ملک میں کس قسم کی حکومت تشکیل دی جاتی ہے اصل بات مشترکہ حکومت یا اور کوئی امر نہیں بلکہ اصل بات دیانتداری اور خلوص کے ساتھ قومی جذبے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے حکومت چلانا ہے ۔قومی حکومت تشکیل دے کراگرپرانے اطوار ہی برقرار رکھے گئے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔توقع کی جانی چاہئے کہ جس قومی حکومت کے قیام کا عندیہ دیا جارہا ہے وہ ماضی کی تمام حکومتوں سے مختلف ہو گی اور اس حکومت کو اس طرح دیانتداری کے ساتھ چلایا جائے گا کہ مخالفین کو بھی شائبہ نہ ہو اور وہ بھی حکومت کی پالیسیوں اور دیانتداری کے معترف بنیں۔

مزید پڑھیں:  کیا پسندوناپسند کا''کھیل ''جاری ہے ؟