اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت

یہ کہہ کر کسی خوشی کا اظہار مناسب تو نہیں کہ جیسا کرو گے ویسا بھروگے ‘ مگر صورتحال ایسی ہی ہے اور خبر یہ ہے کہ حکومت سندھ نے پنجاب کو گندم کی سپلائی روک دی ہے ‘ پنجاب سے ملنے والی سندھ کی شاہراہوں سے چھ مقامات پرعارضی چیک پوسٹیں قائم کر دی گئی ہیں جس کے نتیجے میں گندم کی نئی فصل والے درجنوں ٹرالر پنجاب میں داخل ہونے سے روک دیئے گئے ہیں ۔ پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن پنجاب نے اس پابندی کو آئین کے منافی قرار دیا ہے اور اس کے نتیجے میں پنجاب بھر میں گندم اور آٹے کا بحران جنم لینے لگا ہے ‘ فلور ملز ایسوسی ایشن شمالی پنجاب کے اجلاس میں سندھ حکومت کے اس فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ یہ غیر قانونی پابندیاں لگانے کا سلسلہ روک دیا جائے ‘ اگر چاروں صوبوں نے آئین میں دی گئی بین الصوبائی تجارت کی آزادانہ اجازت کو تہہ و بالا کیا تو اس کے نتیجے میں پورے ملک میں ہر سبزی ‘ ہر پھل ‘ گندم ‘ چینی ‘ چاول سمیت کچن آئٹمز کا بحران شدت اختیار کر جائے گا ‘ حالیہ برسوں میں پہلی بار سندھ نے پنجاب کو گندم کی سپلائی روک دی ہے ‘ حالانکہ آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ صوبوں کے درمیان کماڈئی (اشیائے خوراک) کی تجارت روکی نہیں جا سکتی۔ منیر نیازی نے کہا تھا
ہے منیر حیرت مستقل
میں کھڑا ہوں ایسے مقام پر
آج سے کئی برس پہلے حکومت پنجاب کی جانب سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ساتھ گندم اور آٹے کے حوالے سے ایسا ہی ”ناروا” سلوک مستقل طور پرروا رکھا جاتا تھا ‘ خواہ پنجاب میں نون لیگ کی حکومت ہوتی یا پھر بعد میں موجودہ سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی برسر اقتدار تھے ‘ تب صوبہ سرحد کہلانے والے اس صوبے کی حکومتیں منت ترلے کرنے کے ساتھ وفاق کی توجہ بھی اس آئینی شق کی جانب دلاتے ہوئے یہی مطالبہ کرتی تھیں کہ پنجاب حکومت آئین کے دھجیاں اڑا رہا ہے’ یہاں تک کہ یہ معاملہ ایک سے زیادہ بار عدالت عظمیٰ تک بھی لے جایا گیا جہاں سے حکومت پنجاب کے اس غیر آئینی ‘ غیر قانونی ‘ غیر اخلاقی اور غیر انسانی رویئے کو رد کیا گیا ‘ مگر اس دور کے پنجاب کے وزرائے اعلیٰ ٹس سے مس نہیں ہوتے تھے ‘ڈیرہ دریا خان پل اور اٹک کے قریب ناکوں کے علاوہ ضلع ہزارہ کے دو مقامات پر بھی ناکے لگا کر گندم اور آٹے کے علاوہ میدہ کی ہمارے صوبے میں درآمد پر سخت پابندیاں لگادی جاتی تھیں ‘ظلم کی حد تو اتنی تھی کہ کسی کو ذاتی اور گھریلو استعمال کے لئے پانچ کلو آٹا لانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی ‘ اس دور میں ہم نے اپنی آنکھوں سے یہ سارا تماشا دیکھا جب ہم ریڈیو پاکستان ایبٹ آباد میں خدمات انجام دیا کرتے تھے اور ہر ہفتے چھٹی پر اپنے گھر پشاور آتے تو ہائی ایس ویگن میں بعض ضرورت مندوں کو حسن ابدال کے قریب دکانوں سے کوئی بیس کلو کا تھیلہ یا پھر چارپانچ کلو آٹا خرید کر اپنے ساتھ سیٹ کے نیچے رکھ کر لانے کی کوشش کرتا تو اٹک پل کے اس طرف یعنی پنجاب کی سرحد پر گاڑی کی سخت تلاشی کے دوران سرکاری اہلکار وہ آٹا چھین لیتے ‘ رہ گئی بات پرمٹ کے ذریعے ٹرکوں میں آٹا’ میدہ لانے کی تواس کی تو کسی طور اجازت نہیں دی جاتی تھی اور صوبہ سرحد کی فلور ملوں کو گندم کی سپلائی پر بھی سخت قدغنیں قائم تھیں ‘ یوں صوبے کے فلور ملز ٹھپ ہو کر رہ جاتے جس کی وجہ سے گندم کی پسائی کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ‘ ایک سال تو ایسا بھی آیا جب صوبائی حکومت نے باہر سے انتہائی ناقص گندم کی درآمد کے سودے کرکے زایدالمیعاد گندم فلو ملوں کو سپلائی کی جو پسائی کے بعدسرخ رنگ کے کمزور ترین آٹے میں تبدیل ہونے کے بعد پکانے میں انتہائی دقت کا سامنا کرنا پڑا ‘ اور لوگ جھولیاں بھربھر کر بد دعائیں دیتے ‘ کیونکہ گوندھنے کے بعد اس سے روٹی پکانا تقریباً ناممکن ہوگیا تھا ‘ اس دور کے میرے تحریر کردہ کالم اور ایڈیٹوریل نوٹ جو ایک اور اخبار کے لئے میں تب لکھتا تھا آج بھی ریکارڈ میں دیکھے جا سکتے ہیں ‘ اور بڑی مشکل سے ان برسوں میں رحم کھا کر پنجاب کے حکمران صوبہ سرحد اور بلوچستان کو آٹے کے تھیلے سپلائی کرنے پر آمادہ ہوتے ‘ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ وہ کھلم کھلا آئین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں’ صوبے کی سیاسی قیادت یعنی ہر سیاسی جماعت کے اکابرین بجلی بند کرنے کی دھمکی تک دیتے مگر پنجاب کو معلوم تھا کہ بجلی اگرچہ خیبر پختونخوا کے ڈیمز سے حاصل کی جاتی ہے مگر اس پر بھی مرکز قابض ہے اور حاصل شدہ پن بجلی پہلے قومی گرڈ میں پہنچتی ہے اور بعد میں صوبوں کو دی جاتی ہے جبکہ اس میں بھی صوبے کو اس کے کوٹے کے مطابق بجلی ملتی ہی نہیں ‘ اس قسم کی دھمکیاں بہت مدت پہلے جب صوبہ سرحد میں خان عبدالقیوم خان برسراقتدار تھے تو اسی طرح صوبے کو گندم اور آٹے کی سپلائی روکے جانے پر انہوں نے مرکزی حکومت کے وزیر خوراک کو بجلی بند کرنے کی تڑی لگائی تو دوسرے روز ہی گندم اور آٹے کی فراہمی بحال کر دی گئی تھی گویا پنجاب کے حکمرانوں کا یہ رویہ بہت ہی پرانا ہے جو وہ خیبر پختونخوا(صوبہ سرحد) اور بلوچستان کے ساتھ روا رکھتے تھے ‘ جس کا اب خود اہل پنجاب کو سندھ کے ہاتھوں سامنا ہے ۔ بقول شاعر
اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ’ ذرا بند قبا دیکھ
یقین مانئے ‘ ہمیں ذرا بھر خوشی نہیں ہو رہی اس صورتحال پر ‘ بلکہ دکھ ہو رہا ہے ‘ مگر کسی نے سچ کہا ہے کہ یہ مکافات عمل ہے ‘ یعنی جیسا کروگے ویسا بھروگے ‘ ماضی میں پنجاب نے جو رویہ اختیار کیا تھا آج اسی رویئے کا سامنا ہے ‘ اور آج پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن پنجاب کے کرتا دھرتا حکومت سندھ کے اس اقدام کو آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے جس قسم کے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں ‘ کاش ماضی میں وہ پنجاب میں حکومت کرنے والوں کو بھی ان کے ناجائز اقدامات کوغیر آئینی کہہ کر توجہ دلاتے اور اپنے ہی وطن کے چھوٹے صوبوں کے عوام کے ساتھ اس دور کی حکومتوں کے رویئے کو بھی غیر انسانی قرار دیتے ‘ حالانکہ انہی ادوار میں پنجاب سے افغانستان کویہ چیزیں صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان کے راستوں سے گزارتے ہوئے سپلائی کی جاتی تھیں۔

مزید پڑھیں:  اس طرح سے لوڈ شیڈنگ ختم ہوگی؟