بیرونی سازش کی کہانی کا اعادہ

امربالمعروف جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک کی خارجہ پالیسی کو مروڑنے کی کوشش باہر سے کی جارہی ہے اور بیرون ملک سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو متاثر کیا جارہا ہے اس سازش کا انہیں کئی ماہ سے علم ہے کہ یہ سازش ہو رہی ہے۔ وطن عزیز کی سیاست میں بیرونی سازش کی جو تکرار ہوتی آئی ہے اس کی حقیقت تکرار کرنے والے جانیں البتہ اگر وہ اس طرح کی سازشوں کے تذکرے کی بجائے خود احتسابی اختیار کریں گے اور اقتدار پر فائز دنوں میں عوام کا دکھ درد اور ملک و قوم کے مفاد کو ہر چیز پر مقدم رکھیں گے اور کسی مصلحت اور لالچ کا شکار ہونے کی بجائے راست انداز فکر اپنائیں گے نوشتہ دیوار پڑھتے رہیں گے اور عوام کی فریاد سن کر ان کا مداوا کرنے کی ذمہ داری پوری کرتے رہیں گے تو ان کے خلاف کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہو سکتی اور اگر کہیں سازش ہو رہی ہوتی ہے تو اس کا بروقت اداراک وتدارک عوام کی ذمہ داری نہیں بلکہ حکومت اور اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے ایسی پالیسیاں اپنانا بھی حکومت وقت کا اختیار ہوتا ہے جس میںملک و قوم کا مفاد ہولیکن بدقسمتی سے اس منزل سے ہم کوسوں دور ہیں اور جب اقتدار سے محرومی کے دن نظر آنے لگتے ہیں تو سوائے بیرونی سازش کے اورکچھ نظر نہیں آتاحکمرانوں کے بار بارایک ہی انجام سے دوچار ہونے سے اگر سبق نہ سیکھا جائے تو بعید نہیں کہ سازشی کہانی پھر دہرائی جائے ۔
شعائر اسلامی کی حرمت کا خیال رکھا جائے
وطن عزیز کے مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کی اسلامی معلومات کے حوالے سے حسن ظن رکھنا چاہئے لیکن مختلف ا جلاسوں اور جلسوں میں جس طرح وہ عوام اور میڈیا کے سامنے بنیادی کلمات کی ادائیگی اور مختصر سورت کی تلاوت میں ناکام رہتے ہیں اس سے صرف اسلامی دنیا ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے دیگرممالک میں بھی ہمارے حکمرانوں اور سیاسی رہنمائوں کے دین سے ناواقفیت کے حوالے سے تاثرات فطری امر ہیں جو بطور مسلمان اور کلمہ گو ہر کسی کے لئے تکلیف دہ امر ہے جو بھی اسلام کے نام لیوا ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ دین اسلام کی خدمت اور دین اسلام کی تعلیمات کے فروغ کی جدوجہد کرنے والے ہیں انہیں کم از کم دین کے بنیادی کلمات اور عقائد کا علم ہونا چاہئے اور ان کی زبان دوران تلاوت اور مقدس الفاظ کی ادائیگی کے وقت لڑکھڑانا نہیں چاہئے گزشتہ روز مغرب کے وقت فجر کی اذان دینا ایک انسانی غلطی بہرحال ہو سکتی ہے لیکن اس غلطی سے کیا تاثر قائم ہو ااپنے تو اپنے اغیار نے اس سے کیا تاثر لیا اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے بہتر ہوگا کہ جس حوالے سے بات ہو رہی ہو اور جو عمل ہو رہا ہو اس حوالے سے احترام کے ساتھ ساتھ آگاہی بھی ہونی چاہئے تاکہ کوئی مضحکہ خیز صورتحال پیدا نہ ہو اور نیکی برباد گناہ لازم کا مصداق عمل نہ ٹھہرے۔توقع کی جانی چاہئے کہ سیاسی عوامل سے ہٹ کر اس عمل کو خالصتاً دینی عمل گردان کر اس حوالے سے آئندہ احتیاط کے تقاضوں کو ملحوظ خاطررکھا جائے گا۔
ذخیرہ اندوزوں اورناجائز منافع خوروںکیخلاف کارروائی کا عندیہ
خیبر پختونخوا میں رمضان المبار ک کے دوران ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کی روک تھام میں ناکامی پر متعلقہ انتظامیہ کے خلاف سخت کارروائی کافیصلہ کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنرز کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کس حد تک مناسب ہو گا اس سے قطع نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قبل ازیں انتظامیہ کے متحرک نہ ہونے کا نوٹس کیوں نہیں لیا گیا انہی سطروں میں تواتر کے ساتھ ارتکاب غفلت اور ان مسائل کی بار بار نشاندہی ہوتی رہی ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جن مارکیٹوں اور علاقوں میں اضافی مہنگائی کی شکایات کی گئیں ان میں سے کسی ایک مارکیٹ پردم تحریر چھاپہ مارنے اور کارروائی کی کوئی اطلاع نہیں اور نہ ہی خوراک کا معیار چیک کیا گیا ہے بہرحال حسن ظن رکھتے ہوئے توقع کی جانی چاہئے کہ خفتہ انتظامیہ اور عضو معطل فورڈ اتھارٹی کے حکام کم ازکم رمضان المبارک میں مہنگائی کرنے والوں کے خلاف متحرک نظر آئیں گے ۔

مزید پڑھیں:  گندم سکینڈل کی تحقیقات