ماہ رمضان اور آخری عشرہ

ماہ صیام رحمتوں ،برکتوں کا مہینہ، آخری عشرے کے آخری ایام میں داخل ہوچکا ہے۔ماہ صیا م کا آخری عشرہ یوں بھی اہم ہوتا ہے کہ اسی عشرے میں اللہ تعالی نے لیلةالقدر رکھ دی ہے ، جو ہزار راتوں سے بہتر رات ہے۔خدا جانے کون خوش نصیب ہوتے ہوں گے کہ جنہیں اس عظیم رات کی رحمتیں میسر ہوتی ہوںگی۔ہم جیسے عاصی تو بس اس کی تمنا ہی کرسکتے ہیں۔اللہ بہرحال دلوں کا حال خوب جانتا ہے کہ بندہ اسی کی تخلیق ہے اور خالق سے زیادہ اپنی تخلیق کو کون جان سکتاہے۔جب وہ دلوں کے حال بھی جانتا ہے تو انسان کی کجیاں ، کمزوریاں بھی اس ذات باری تعالیٰ کو خوب ہی معلوم ہوں گی۔نہ ہی اللہ اپنے بندوں پر اتنا بوجھ ڈالتا ہے کہ جو اُن کی طاقت سے سوا ہو، اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی عبادات انسان کے لیے رکھی ہیں وہ تمام عبادات بے شک خود انسان کے فائدے کے لیے ہی ہیں۔اللہ کو نہ ان عبادت کی ضرورت ہے نہ وہ ان کا محتاج ہے ۔ایک نماز ہی کو لے لیجئے کہ جس میں عام نمازیں اپنے گھروں کے نزدیک مسجدوں میں پڑھنے کا حکم ہے اس کے پس منظر میں یہی فائدہ ہے کہ بندہ اپنے اہل محلہ کے ساتھ میل جول پیداکرسکے ان کے دکھ درد میں شامل ہوسکے ان سے انس اور محبت پیدا کرسکے ۔یعنی اللہ کی عظمتوں کے بیان کے ساتھ مسلمان محبت کی لڑی میں پرودیے جاتے ہیں اور یہی اللہ کی وہ رسی ہے کہ جسے مضبوطی سے پکڑنے کا حکم آیا ہے۔ گویا اللہ کی ذات اپنے بندوں میں ایک وسیع سماج ترتیب دیناچاہتی ہے مگر ہم مسلمان ایک ایک اینٹ کی مسجد لیے الگ الگ گروہوں میں بٹ چکے ہیں اور خود دین اسلام کی حزیمت کا باعث بن رہے ہیں۔اسلام جو سراسر سلامتی ہے آج اسی کے ماننے والوں کی وجہ سے تشدد کا شکار ہے وجہ وہی ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا نہیں جارہا۔اللہ ،نبی ۖاور قرآن سب ایک ہیں مگر ان کو ماننے والے ایک نہیں ہوپارہے ۔یہ عشرہ نیکیوں اور عبادتوں اور اللہ جل شانہ کی یاد اوراس کی عظمتوں ، بڑائیوں کے بیان اور جسمانی ریاضتوں کے حوالے سے جتنا اہم ہے اسی طرح یہ عشرہ اس ماہ مبارک کے اختتام کا بھی اعلان کرتا ہے۔ رمضان کے اختتام کی ایک خوشی کہ جسے ہم عید کہتے ہیں واقعی یہ صحیح معنوں میں عید ہی ہوتی ہے کہ اس میں ایک ایسا خوشگوار احساس ہر روزہ دار کے شامل حال رہتا ہے کہ ایک مشکل امتحان سے بخیروخوبی اور کامیابی کے ساتھ گزرآئے۔اللہ نے یہ مہینہ ہماری زندگیوں میں اسی لیے رکھا ہے کہ اس مہینے میں مسلمان اپنے نفس پر قابوپانے کی تربیت حاصل کرسکیں۔بے شک یہ مہینہ خود انسانوں کے لیے جسمانی اور روحانی حوالوں سے ایک شفا کا مہینہ ہے۔یہ مہینہ اس تربیت کے ساتھ ساتھ خداکے قرب کا مہینہ بھی ہے کہ جس میں مسلمان عبادات کے ذریعے اپنے خالق کا قرب حاصل کرتے ہیں ۔چاہئیے تو یہ کہ اس مہینے کے اثرات باقی گیارہ مہینوں میں قائم رہیں مگر عموماًہم اس ماہ مبارک کے اختتام کے بعد فوراًہی دنیاداری میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔عید کے دن ہی سے ہماری عبادات کا سلسلہ موقوف ہوجاتا ہے اور جو ایک پیارا رشتہ رمضان کے مہینے میں بنتا ہے اسے ہم یک لخت بھلا دیتے ہیں۔یہ مہینہ تو ایک قسم کی ٹریننگ ہے مگر ہم اس ٹریننگ کا کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے اور دنیاوی مشاغل میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔نہ ہی ہم جسمانی ریاضت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ ہی روحانی ریاضت کو باقی کے مہینوں میں بروئے کارلاتے ہیں۔ رمضان المبارک کاایک فیض خوف خدا بھی ہے۔یہی خالق اور مخلوق کا رشتہ استوار ہوتا ہے ۔اور بندہ توہے ہی بندگی کے لیے ۔بندگی کیا ہے مکمل سرینڈر کردینا،کہ بس تو ہی ہے کہ جو مالک ہے میرا ۔بندگی تسلیم ورضا ہے کہ بس تو ہی ہے کہ کردگار ہے پھر میری کیا حیثیت اور کیا حقیقت ۔بندگی عابد بنادیتی ہے کیونکہ معبود جو سامنے ہوتا ہے۔انسان کو یونہی تو اشرف المخلوق نہیں بنادیا گیابلکہ یہی خالق اور مخلوق کا رشتہ ،مالک اور بندگی کا رشتہ ، انسان کو وہ مقام بخشتا ہے کہ جس میں انسان اشرف المخلوک ہونے کا اہل ٹھہرتاہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ اپنے بندے کی ریاضتوں ،عبادتوں کی وجہ سے اس رمضان کے مہینے میں خوش ہوتا ہے لیکن کیا بس اللہ کی خوشنودی صرف رمضان تک محدود ہے یا باقی کے مہینوں میں بھی اس خوشنودی کا خیال رکھنا لازمی نہیں اور کیا خالق ومخلوق کے اس شاندار رشتے کا تقدس بقیہ مہینوں میں نہیں ہونا چاہیئے اور کیا اللہ کا منشور ہم تک نہیں پہنچ چکا کہ جس پر عمل کرنا ساری زندگی کا فیض ہے ۔عیدآنے والی ہے ،جس کی خوشیاں لاجواب اور بے مثال ہیں لیکن اس موقع پر ایک لمحہ کے لیے یہ ضرور سوچنا چاہیئے کہ ہم نے اس مقدس مہینے میں کیا کھویا اور کیا پایا ۔یقینا اس سوال کا جواب یہی آئے گا کہ ہم نے کھویا ہی کچھ نہیں بلکہ پایا ہی پایا ہے شرط صرف اتنی ہے کہ ہم اپنی ذات کا محاسبہ کریں کہ ان تیس دنوں کی ٹریننگ میں ہمیں جو جسمانی ،روحانی اورنفسانی تربیت دی گئی ہے اس ٹریننگ کو باقی کے مہینوں میں کس طرح استعمال کرنا ہے ۔یقین جانیے ہمارے معاشرے میں جتنے بگاڑ موجود ہیں ان کا حل ہمارے پاس موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم خود اپنی اصلاح کرلیں ۔رمضان توذات کی اسی اصلاح کی تربیت دیتا ہے۔اللہ کرے کہ ہم سب اپنی اپنی اصلاح کے قابل ہوجائیں اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے سماج کو بھی گل و گلزار بنادیں ۔

مزید پڑھیں:  حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم