اور کتنا سخت فیصلہ

عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)سے مذاکرات کی روشنی میں بظاہر ایندھن و بجلی کی سبسڈی ختم کرنے کے حوالے سے ماحول بناتے ہوئے توانائی کے وزرا نے کہا ہے کہ6مہینے بعد سخت ترین فیصلے کرنے سے بہتر ہے کہ ابھی سخت فیصلے کر لیے جائیں ۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ جمعرات کو بجلی کی لوڈشیڈنگ ایک گھنٹے سے بڑھا کر2گھنٹے کی گئی۔یہ درست ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں ایل این جی ‘ فرنس آئل اور کوئلے کے انتظام میں کوتاہی کی گئی ہو گی لیکن بہرحال چونکہ وہ حکومت اب رخصت ہو چکی ہے اس لئے بجائے اس کے کہ اس طرح کے عذر لنگ تلاش کرنے کی بجائے بجلی و توانائی کے وزیر لوڈ شیڈنگ کے دورانیہ میں کمی اور بجلی کے پیداوار میں اضافہ کی ذمہ داری اٹھائیں گزشتہ حکومت کی کوتاہیوںپر تنقید سے قطع نظر وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے فوری طور پر لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی جو ہدایت کی گئی تھی اس کے باوجودخود وزیر بجلی و توانائی لوڈ شیڈنگ کے دورانیہ میں اضافہ کا اعتراف کر رہے ہیں دوسری جانب یہ کہ جتنی لوڈ شیڈنگ کا اعتراف کیا جارہا ہے حقیقت یہ ہے کہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ اس سے کہیں زیادہ اور سنگین ہوچکا ہے جن جن علاقوں میں مسلم لیگ نون کے سابق دور حکومت کے بعد لوڈ شیڈنگ نہیں ہورہی تھی ا ن علاقوں میں بھی اب شیڈول کے مطابق لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ ملک میں بجلی کی طلب اور پیداوار کے درمیان فرق بڑھ گیا ہے ۔پریس کانفرنس میں بجلی کی پیداوار کی بجائے بجلی مہنگی کرنے کا جو عندیہ ظاہر کیا گیا ہے یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں بلکہ یہ عندیہ اس لئے بھی حقیقت پسندانہ نہیں کیونکہ سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے پہلے ہی نیپرا کو اپریل کی ماہانہ ایندھن ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 4روپے 5پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی درخواست دے دی ہے جبکہ قبل ازیں مہینہ بھر کی حکومت کے دوران بھی بجلی کے نرخوں میں غالباً دو مرتبہ اضافہ ہو چکا ہے ایک ایسے وقت جب تسلسل کے ساتھ اضافہ جاری ہے بہتر یہ تھا کہ اس پر خاموشی اختیار کی جاتی یا پھر کم از کم ان وجوہات پر عوام کو اعتماد میں لیا جاتا جس کے باعث بجلی کی قیمتو ں میں اضافہ ہو رہا ہے پریس کانفرنس سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت معمول کے اس اضافے کے ساتھ ساتھ بجلی کے نرخوں میں کوئی بڑا اضافہ کرنے کی تیاری کر رہی ہے جس کے لئے راہ ہموار کی جارہی ہے ماضی میں بجلی کے نرخوں میں اضافے پر تنقید اسے مہنگائی میں اضافہ کی بڑی وجہ اور حکومت کی جانب سے عوام پر بجلی گرانے جیسے معاملے پر اختیار کردہ موقف والوں کی جب اپنی باری آگئی ہے تو بجائے اس کے کہ عوام کو ریلیف دیا جائے گزشتہ حکومتی پالیسیاں جاری رکھی جارہی ہیں یہ درست ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ گزشتہ اور موجودہ دونوں حکومتوں کی مجبوری ہو گی ایسے میں بجائے ذمہ داری اپنے پیشروئوں پر ڈالنے کی بجائے اس کی ذمہ داری خود لی جائے تو بہتر ہوگا۔
وزیر اعظم کا احسن اقدام
وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے سولر پینلز پر عائد17فیصد سیلز ٹیکس فوری طور ختم کرنے کا اعلان خوش آئند امر ہے وزیراعظم نے بجا کہا کہ ہمیں سولر اور ونڈ انرجی کی طرف جانا پڑے گا جس کے بعد تیل و گیس کی درآمدات میں کمی ہوگی۔ اس میں وقت لگے گا یہ راتوں رات نہیں ہو سکتا۔سولر پینلز کی فروخت میںاضافہ کی بڑی وجہ ماہانہ بنیادوں پر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور لوڈ شیڈنگ ہے گزشتہ حکومت کی جانب سے اس پر17 فیصدٹیکس عائد کرنے سے یہ سہولت مزید مہنگی ہو گئی تھی جسے واپس لینے کا اقدام احسن ہے لیکن دیکھا جائے تو شمسی توانائی کا نظام لگانے کا عمل اس کے باوجود بھی فروغ پذیر ہونا مشکل اس لئے ہے کہ ٹیلی میٹر لگانے اور واپڈا کو بجلی کی فروخت کے حوالے سے بھی ابھی بہت سی پیچیدگیاں موجود ہیں جو اس نظام کی طرف رجوع کرنے والوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں جس کے حوالے سے وزارت بجلی و پانی سے وزیر اعظم کو رپورٹ طلب کرنے اور اس معاملے کو سادہ اور آسان بنانے کی ہدایت کرنی چاہئے نیز سولر سسٹم لگانے والوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ان کو بلا سود قرضے یا پھر قسطوں پر سولر نظام دینے کا عمل شروع کیا جائے تاکہ شمسی توانائی کے استعمال میں اضافہ ہو اور بجلی کی کمی پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی سہولت حاصل ہو۔
وصال یار فقط آروز کی بات نہیں
مزدوروں کے لئے کم سے کم تنخواہ مقرر کرنے والے ویج بورڈ نے یکم جولائی سے صوبہ بھر میں کم سے کم اجرت25ہزار روپے مقرر کرنے کی تجویز پیش کر دی گئی ہے جبکہ اس حوالے سے کسی بھی قسم کی خدشات اور شکایات کے لئے ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے محکمہ محنت خیبر پختونخوا کے زیر انتظام کام کرنے والے ویج بورڈ کے چیئرمین کی جانب سے جاری کئے گئے اعلامیہ کے مطابق کم سے کم اجرت 22ہزار روپے مقرر کرنے کی سفارش کی گئی ہے اور یہ کم سے کم اجرت غیر تربیت یافتہ اور جوان سمیت18سال سے کم عمر کے مزدوروں کے لئے طے کی گئی ہے مزدوروں کو یومیہ961 روپے53پیسے ادا کئے جائیں گے اور ان کے کام کرنے کا دورانیہ آٹھ گھنٹے تک محدود ہو گا جبکہ وہ مہینے میں28دن تک کام کریں گے باقی چار روز انہیں ہفتہ وار چھٹی دی جائے گی۔مہنگائی کے تناظر میں محنت کشوںکی کم سے کم تنخواہ میں اضافہ خوش آئندامر ضرور ہے لیکن اصل بات اس کا نفاذ اور اس پر عمل درآمد یقینی بنانے کا ہے جس میں پہلے بھی محکمہ محنت کی ناکامی تساہل اور چشم پوشی کسی سے پوشیدہ نہیں اب بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ کم سے کم اجرت کے نفاذ کے اعلان پر عملی طور پر عمل درآمد میں سنجیدگی اختیار کی جائے گی بہتر ہو گا کہ خوش آئند اعلان کے ساتھ اس پر ہر قیمت پر عمل درآمد کے تقاضے بھی پورے کئے جائیں اور محنت کشوں کی کم سے کم تنخواہ کے ساتھ ان کے جائز حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار