قومی معیشت ،سوجوتے اور سو پیاز

پاکستان کا حکومتی منظر عالمی قوتوں کے لئے ایک ناپسندیدہ تصویر سے خالی ہوئے ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے مگر پاکستانی عوام کے روز وشب وہی رہتے جو پہلے تھے تو کچھ عجب اورتعجب نہ تھا مگرعوام کے اوقات ہر گزرتے دن کے ساتھ تلخ سے تلخ تر ہوتے جارہے ہیں۔ آئی ایم ایف حکومت کی شہ رگ پرپائوں رکھے ہوئے ہے۔وہ حکومت کے حلق میں وہ تلخ مشروب ڈالنا چاہتی ہے جو اسے عوامی حمایت سے محروم کر سکتا ہے ۔ایک ماہ سے حکو مت سخت فیصلوں کا ارادہ باندھے ہوئے ہے مگر حالات اس شعر کے مصداق ہیں
ارادے باندھتاہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہو جائے
موجودہ منظر تشکیل پانے سے اب تک ڈالر کی قیمت میں اٹھارہ روپے ستائیس پیسے مہنگا ہو چکا ہے جبکہ ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے ۔انٹربینک میں ڈالر دو سوایک روپے بیس پیسے مہنگا ہو چکا ہے ۔عمران خان کی حکومت میں جب ڈالر ڈیڑھ سو کے قریب پہنچا تھا تو ریحام خان نے امریکہ سے پیش گوئی کی تھی کہ ڈالر ڈھائی سو روپے تک پہنچ جائے گا ۔لگتا ہے کہ ان کی یہ پیش آج کے دن اور موجودہ حکومت کے حوالے سے تھی کیونکہ دو سو کی حد عبور ہوتے ہی اب ڈالر کے آگے سپیڈ بریکر باندھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل جانے والی حکومت پر الزامات کا طومار باندھ کر دوحہ روانہ ہوگئے ہیں جہاں آئی ایم ایف کے ساتھ ان کے مذاکرت ہونا ہیں ۔ان مذاکرات کے بعد بجٹ کے رنگ اور رخ کا اندازہ ہوگا ۔سابق مشیر خزانہ شوکت ترین نے مفتاح اسماعیل کے الزامات کو رد کر دیا ہے۔یہ وہی بحث وتکرار ہے جو پچھلے دور میں بھی جاری تھی مگر اس اس بحث سے عوام کی صحت پر کیا اثر پڑنا ہے ۔یہ تو ٹھنڈے ٹھار ٹی وی سٹوڈیوز کی کی باتیں ہیں جس کا باہر کی دنیا اور خلق خدا کے معاملات سے تعلق نہیں ہوتا ۔خلق خدا کو ریلیف ملے تو نظر آتا ہے۔امریکہ نے ہر طریقے سے مودی کی کلائی مروڑنے کی کوشش کی مگر مودی نے دبائو کا مقابلہ کرکے روس کے ساتھ تیل کی خریداری جاری رکھی ۔بھارت نے یورپ کی مثالیں دے کر امریکہ کو سمجھانے کی کوشش کی پہلے آپ یورپ کو روکیں پھر بھارت پر دبائو ڈالیں ۔افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان کی ریاست روس سے سستے تیل اور گندم کی خرید کی روسی پیشکش سے فائدہ نہ اُٹھانے پر مغرب کے دبائو کا مقابلہ نہ کر سکی اور یوں پاکستان میں رجیم چینج کا آپریشن ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان متبادل ذرائع کی طرف جارہا تھا ۔آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہنا پاکستان کے لئے ایک ناسور اوردرد سر ہے ۔جو ملک آئی ایم ایف کے مکمل رحم وکرم پر آیا آئی ایم ایف نے اس کے بخئے ادھیڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ آئی ایم ایف کے شکنجے سے نکلنے کی کوششیں آسان نہیں ہوتیں اور سری لنکا اور پاکستان جیسے ملکوں میں جو مستقبل کے جیو سٹریٹجک منظر میں خاصے اہم ہیں ۔چین اور روس کے پہلو میں ہیں۔چین کے مدمقابل بنائے جانے والے بھارت کی ہمسائیگی میں ہیں۔ایسے ملکوں کو آزاد اُڑانیں بھرنے کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے ۔پاکستان کو افغانستان کے معاملات پر امریکہ کی پالیسی پر ٹیون کرنے کے لئے سب سے پہلا نکتہ آئی ایم ایف کے ذریعے کلائی مروڑنا ہی تھا اب اس نکتے پر عمل درآمد ہورہا ہے۔عمران خان کا چہرہ حکومتی منظر سے غائب ہونے سے امریکہ کی تشفی نہیں ہوئی ۔یہ مطالبے کی ایک پرت تھی کہ ایک صفحہ پھٹ جائے ۔مطالبات کی باقی پرتیں ابھی باقی ہیں۔ایک طرف آئی ایف کے ذریعے معیشت کا گلہ گھونٹا جا رہا ہے تو دوسری طر ف اس بھنور سے نکلنے کے لئے پاکستان کو ہاتھ پائوں مارنے کی اجازت بھی نہیں ۔بھارت نے ہاتھ پائوں مار کر تیل سستا کر دیا مگر پاکستان ہاتھ پائوں مارنے کا خمیازہ آج سیاسی انارکی اور بڑھتی ہوئی مہنگا ئی کی صورت میں بھگت رہا ہے۔یہ توایک آبادی اور ریاست کو بند گلی میں لاکھڑا کرنے کی حکمت عملی ہے ۔بند گلی میں کھڑے شخص کے لئے باہر نکلنے کی ہر قیمت قبول اور گوارا ہو سکتی ہے۔موجودہ حکومت عمران خان کے اس دعوے کے لٹمس ٹیسٹ کے طور پر کہ وہ روس سے سستی گندم اور تیل خریدرہے تھے ،دوبارہ روس سے رجوع کر سکتی ہے مگر شاید حکومت یہ خطرہ مول نہیں لے گی کیونکہ اس طرف جاتے ہوئے ہر کسی کے پر جلتے ہیں۔حکومت اس امید پر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کو حکومت چلانے میں مدد دے ۔اسٹیبلشمنٹ کی خواہش ہوگی کہ حکومت تلخ معاشی فیصلے کرے۔آئی ایم ایف کے حصار میں رہتے ہوئے یہ سب کچھ معاشی مشکلا ت کو کم نہیں کرے گا کیونکہ یہ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے والی بات ہے ۔حل صرف یہی ہے کہ آئی ایم ایف کے حصار او ر گھیرے کی دیوار میں چھید کرکے توانائی کے متبادل اور غیر روایتی انداز اپنائے جائیں مگر پاکستان جیسے ملکوں کو ان آزادانہ اُڑانوں کی اجازت نہیںاور اس خواب کی بھاری قیمت ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار