ان شرائط پر معاہدہ کیسے ہو سکتا ہے؟

وفاقی وزیرداخلہ راناثنااللہ نے کہا ہے کہ پاک-افغان سرحد سے فوج کی واپسی اور فاٹا کا انضمام ختم کرنے کی شرط پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ مطالبات آئین کے خلاف ہیں۔ وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ جو لوگ ہتھیار ڈالنے کے خواہاں ہیں ان کے ساتھ مذاکرات ممکن ہیں۔انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سول اور عسکری قیادت ایک صفحے پر ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو اسلحہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، دوسری صورت میں ہم لڑائی سے گریز نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ نہ فوج واپس بلانے پر بات ہوگی، نہ آئین پاکستان سے ہٹ کر بات ہوگی، نہ فاٹا کے انضمام کو واپس قبائلی علاقے کی حیثیت دینے پر بات ہوگی کیونکہ یہ آئین کے خلاف ہے، اس کے لئے کوئی بات نہیں ہوگی۔یاد رہے کہ قومی اسمبلی نے 24مئی2018کو آئینی ترمیم منظور کی تھی، جس کے تحت وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں(فاٹا)کے صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کی راہ ہموار ہوئی تھی۔قبائلی عمائدین کے جرگہ کی وساطت سے ٹی ٹی پی سے مذاکرات یا پھر اس کے لئے ماحول تیار کرنے کے حوالے سے پیش رفت وہ مطالبات اور شرائط ہیں جن کو وزیر داخلہ نے غیر آئینی قرار دے کر تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا ہے وزیر داخلہ کے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو کے مندرجات سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی سے گفت و شنید آگے نہیں بڑھی جس قسم کی شرائط رکھی گئی ہیں یہ ضم اضلاع کے عوام اور حکومت و ریاست کے معاملات ہیں جن میں کسی ایسے گروہ کو شرط رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جس کا سرے سے کوئی علاقہ ہی نہ ہو۔ سابق فاٹا کا انضمام اور قبائلی اضلاع میں پولیٹیکل نظام کی جگہ جمہوری نظام اور سول قوانین کا نفاذ عدالتی نظام پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو معاملات کی حوالگی کا عمل نہ صرف مکمل ہو چکا ہے بلکہ کامیابی سے جاری بھی ہے البتہ یہ حقیقت ہے کہ قبائلی عوام کی وہ امیدیں بر نہیں آئیں اور ان کی وہ توقعات پوری نہیں ہوئیں جن کا انہوں نے خواب دیکھا تھا بظاہر تو ایک فرسودہ نظام اور انگریز دور کے قوانین کی کایا کلپ کردی گئی ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کایا پلٹ جاتی مگر دیکھا جائے تو صرف نام کی حد تک نظام کی تبدیلی ہوئی ہے اس سے مضحکہ خیز بات کیا ہو گی کہ بعض ضم اضلاع کی ا علیٰ انتظامیہ کے دفاتر مرکزی اور قابل رسائی علاقے میں ہونے کی بجائے بہت دور واقع ہیں عدالتوں کا بھی یہی حال ہے تعلیم و صحت کی سہولتوں کا معاملہ بھی کوئی احسن نہیں ہسپتالوں کے نظام اور تعلیم میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی دیگر شعبوں میں بھی ترقی تو درکنار بعض سرکاری اداروں اور مشینری کا وجود کاغذوں میں ہی ہے تنخواہوں کی وصولی ہو رہی ہے لیکن خدمات کی ادائیگی نہیں ہوتی ضم اضلاع میں زراعت ‘ باغبانی ‘ کان کنی ‘ معدنیات اور تجارتی شعبے میںاصلاح اور ترقی کے جو مواقع مطلوب ہیں جن پر توجہ دے کر ان کو انضمام کے ثمرات میں تبدیل کیا جا سکتا تھا عنقاء ہیں سرحدی تجارت میں اضافہ کی بجائے کمی آگئی ہے ان حالات میں عوام کا یہ سوال اٹھانے کا حق ہے کہ اس بے ثمر اور لاحاصل عمل سے ان کو کیا ملا لیکن کسی ایسے گروہ جو سابق فاٹا میں بدامنی ‘ دہشت گردی کے واقعات اور یہاں تک کہ قبائلی عوام کو ان کی وجہ سے اپنے علاقے چھوڑنے پڑے اور آج تک ان کی معمول کی زندگی بحال نہیں ہوسکی ہے ان کی جانب سے فاٹا انضمام کے خاتمے کی بات کرنے کا کوئی حق نہیں اور نہ ہی ان کو دخل درمعقولات کی اس حد تک اجازت دی جا سکتی ہے ان کو یہ حق اسی صورت ہی مل سکتا ہے جب وہ ہتھیار ڈال کر تسلیم کر لیں کہ وہ بھٹک گئے تھے۔ہتھیار ڈالنے والوں میں سے بھی ان عناصر کو معافی نہیں مل سکتی جو سنگین ترین وارداتوں میں ملوث رہے ہوں ۔ وزیر داخلہ کے دو ٹوک پیغام کے بعد مشکل نظر آتا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان سے مذاکرات کی طرف متوجہ ہو گی قومی قیادت کی جانب سے ان سے معاملات کی سعی احسن ہے لیکن اس کی حمایت اس وقت ہی ممکن ہے جب دوسری جانب سے بھی سخت شرائط اور منوانے کی سعی کی بجائے مفاہمت کا عندیہ دیاجائے اس تمام صورتحال کو اگر ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے تو ٹی ٹی پی کی ماضی کے تناظر میں ان سے مفاہمت ممکن ہی نہیں اور نہ ہی کسی مفاہمتی فارمولے کی طرفیں کی جانب سے پابندی ممکن ہے جو لوگ معصوم لوگوں کونشانہ بنانے کے ملزم ہوں ریاست کے لئے بھی یہ ممکن نہیں کہ ان کو معافی دے دی جائے اس طرح کی کسی کوشش عالمی سطح پر بھی ملک کے لئے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے ۔ ٹی ٹی پی کی قیادت کی افغانستان موجودگی کے باعث طالبان حکومت اور افغان طالبان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ضمن میں کردار ادا کریں اور اگر ان کی صفوں میں پاکستانی طالبان کے لئے ہمدردی پائی جاتی ہے اور وہ مشکلات ودبائو کا شکار ہیں تو کم از کم اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی ذمہ داری پوری کرنے کی اخلاقی اور بین الاقوامی فریضہ ہی نبھائیں جہاں تک ضم اضلاع سے فوج کو واپس بلانے کے مطالبے کا تعلق ہے اس کا صاف مقصد یہی نظر آتا ہے کہ ٹی ٹی پی ایک مرتبہ پھر ضم اضلاع کے عوام کو یرغمال بنانا چاہتی ہے جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہاں فوج کی تعیناتی ضروری ہے ان کی تعداد کتنی ہو اور کس صلاحیت کے حامل ہوں ان کی تعداد میں کمی بیشی کی ضرورت ہو یا واپس بلانے کی ضرورت پڑے یہ حکومت و ریاست اور عسکری قیادت کی سوچنے اور عمل کرنے کی بات ہے اس میں کسی کو مداخلت کرنے اور مطالبہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی طالبان تو کجا خود اپنے شہریوں کو بھی ایک خاص دائرے سے ہٹ کر اس طرح کے دخل درمعقولات کی اجازت نہیں دی جا سکتی یہ امور مملکت خویش خسروان دانند کے زمرے میں آنے والا معاملہ ہے۔ مذاکرات اور مفاہمت کی کوششوں کی ناکامی کی صورت میں اور شہریوں کی حفاظت کے لئے اس وقت بھی ضروری حفاظتی اقدامات اور عملے کی تعیناتی و موجودگی ضروری ہے ضم اضلاع میں خاص طور پر چند ایک میں بڑی قربانی کے بعد امن بحال ہوا ہے جسے برقرار رکھنا اور مزید کسی خطرے سے دو چار ہونے سے محفوظ رکھنے کے لئے تسلسل کا ایک عمل لازم ہے جس سے قطع نظر مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں جو متوقع صورتحال ہو گی اس کے لئے ہمہ وقت تیاری اور سیکورٹی فورسز کی موجودگی و مضبوط پوزیشن لازم ہے ماضی میں پاک فوج کوقبائلی اضلاع میں تظہیری عمل کے ذریعے سرحد تک رسائی میں جو مشکلات پیش آئیں اور دہشت گردوں کو کچلنے اور ان کو پیچھے دھکیلنے میں جو قربانیاں دینی پڑیں اس عمل کی تکمیل کے باوجود اب بھی کبھی کبھار دہشت گردوں کو موقع مل ہی جاتا ہے ایسے میں فوج کی واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ پاک فوج کی ترجیح ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام اور ناپسندیدہ عناصر کے سر اٹھانے کی کسی بھی سعی کو اگر خفیہ اطلاعات پر اچانک ناکام نہ بنایا جا سکے تو کم از کم اتنی تیاری اور مستعدی لازمی ہے کہ فوری حرکت میں آیا جائے جاری حالات اور صورتحال میں نظر نہیں آتا کہ کوئی مفاہمت ہو جائے گی بنا بریں پوری تیاری اور ساتھ ساتھ تطہیر کا عمل جاری رکھا جانا چاہئے البتہ علاقے کے عوام کے جو بنیادی حقوق اور ان کو سہولیات کے حوالے سے شکایات ہیں ان میں کمی لانے کی سنجیدہ مساعی کی ضرورت ہے ۔

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات