کیا سادات کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے

کیا سادات کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے؟

سوال: کیا اہل سادات یعنی سید اپنے ہی خاندان میں سید کو زکوٰۃ دے سکتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو جس نے لاعلمی میں دیا ہو تو اس زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟

جواب: فقیہ الامت حضرت مفتی محمود گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
سادات کا اکرام و احترام لازم ہے ، اس لیے ان کو زکوٰۃ و صدقات واجبہ دینے سے احتراز کا حکم ہے کیونکہ ایسا مال اوساخ الناس کہلاتا ہے لیکن جو سادات اس قدر حاجت مند ہوں کہ گزارے کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہو جائیں، ان کے حق میں حنفیہ میں سے امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ اور شافعیہ میں سے امام رازیؒ نے زکوٰۃ کو درست قرار دیا ہے کہ زکوٰۃ لینے میں جس قدر ان کے احترام پر زد پڑتی ہے ، اس سے زیادہ تر بھیک مانگنے میں ہے، یہ سب نگاہوں میں بڑی ذلت ہے ، اس بڑی ذلت سے بچانے کے لیے اگر ان کو زکوٰۃ دے دی جائے تو یہ آسان تر ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ جلد ۹ ص ۵۶۰)

چونکہ مشکل حالات میں سید کو زکوٰۃ دینے کا جواز اہل علم سے منقول ہے اس لیے کوئی سید اگر اس قدر محتاج ہو کہ بھیک مانگتے تک نوبت آ سکتی ہو اور اس کو غیر زکوٰۃ کے مد سے دینے کو کوئی تیار نہ ہو تو اس کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے اور جس نے اس سے پہلے دی ہے وہ بھی ادا ہو چکی ہے۔