تین کبار صحابہ کرام کے قتل کی مذموم سازش

تین کبار صحابہ کرام کے قتل کی مذموم سازش

صاحب مجمع الفوائد نے طبرانی کی معجم کبیر کے حوالہ سے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ کسی قدر تفصیل سے اسماعیل بن راشد کی روایت سے نقل کیا ہے۔ ذیل میں پہلے فرقہ خوارج کا کچھ تعارف‘ پھر اس واقعہ کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے۔

خوارج درحقیقت حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے لشکر ہی کا ایک خاص گروہ تھا جو اپنی حماقت اور ذہنی کجروی کی وجہ سے ان کے فیصلے کو غلط اور معاذ اللہ قرآن مجید کے صریح خلاف سمجھ کر ان کا مخالف اور آمادۂ بغاوت ہو گیا تھا‘ ان کی تعداد کئی ہزار تھی‘ پھر حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے افہام و تفہیم کے نتیجہ میں ان میں سے ایک خاص تعداد راہِ راست پر آ گئی لیکن ان کی بڑی تعداد اپنی گمراہی پر قائم رہی‘ اور قتل و قتال پر آمادہ ہو گئی۔ بالآخر علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو ان کے خلاف طاقت استعمال کرنی پڑی‘ جس کے نتیجے میں ان میں سے اکثر کا خاتمہ ہو گیا ‘ کچھ باقی رہ گئے۔ ان باقی رہ جانے والوںمیں سے (۱)۔ برک بن عبداللہ (۲)۔ عمرو بن بکر تمیمی اور (۳)۔ عبدالرحمن بن ملجم مکہ مکرمہ میں جمع ہوئے۔ انہوں نے صورت حال پر تبادلۂ خیال کیا ‘اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ سارافتنہ ان لوگوں کی وجہ سے ہے جن کے ہاتھوں میں حکومت ہے‘ ان کو کسی طرح ختم کر دیا جائے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے تین حضرات کو متعین طور پر نامزد کیا :(۱) حضرت معاویہ (۲)حضرت عمرو بن عاص (۳)حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہم

برک نے کہا کہ معاویہؓ کو قتل کرنے کی ذمہ داری میں لیتا ہوں۔ عمروبن تمیمی نے کہا کہ عمرو بن عاصؓ کوختم کر دینے کی ذمہ داری میں لیتا ہوں۔ عبدالرحمن ملجم نے کہا کہ علیؓ کو قتل کر دینے کی ذمہ داری میں لیتا ہوں۔ پھر انہوں نے آپس میں اس پر عہد و پیمان کیا اوراس کے لیے یہ اسکیم بنائی کہ ہم میں ہر ایک ۱۷ رمضان المبارک کو جب کہ یہ لوگ فجرکی نماز پڑھانے کے لیے نکل رہے ہوں گے ‘ حملہ کر کے اپنا کام کریں گے۔ اس دور میں نماز کی امامت خلیفہ ٔ وقت یا ان کے مقرر کیے ہوئے امیر ہی کرتے تھے۔
اپنے بنائے ہوئے اس پروگرام کے مطابق برک بن عبداللہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دارالحکومت دمشق روانہ ہو گیا اور عمرو تمیمی مصر کی طرف جہاں کے امیر و حاکم حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ تھے اور عبدالرحمن بن ملجم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دارالحکومت کوفہ کے لیے روانہ ہو گیا۔

17رمضان المبارک کی صبح فجرکی نماز پڑھانے کے لیے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تشریف لے جارہے تھے ‘ برک نے تلوار سے حملہ کیا ‘ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کچھ محسوس ہوا اور انہوں نے دوڑ کر اپنے آپ کو بچانا چاہا پھر بھی برک کی تلوار سے ان کی ایک سرین پر گہرا زخم آ گیا۔ برک کو گرفتار کر لیا گیا (اور بعد میں قتل کر دیا گیا) ۔ زخم کے علاج کے لیے طبیب بلایا گیا ‘ اس نے زخم کو دیکھ کر جس تلوار کا زخم ہے اُس کو زہر میں بجھایا گیا ہے ‘ اس کے علاج کی ایک صورت یہ ہے کہ گرم لوہے سے زخم کو داغ دیا جائے ‘ اس صورت میں امید ہے کہ زہر سارے جسم میں سرایت نہیں کر سکے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ میں آپ کو ایک ایسی دوا تیار کر کے پلاؤں جس کا اثر یہ ہوگا کہ اس کے بعد آپ کی کوئی اولاد نہ ہو سکے گی۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گرم لوہے کے داغ کو تو میں برداشت نہیں کر سکوں گا ‘ اس لیے مجھے وہ دوا تیار کر کے ہی پلا دی جائے‘ میرے لیے دو بیٹے کافی ہیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ صحت یاب ہو گئے۔

عمرو تمیمی اپنے پروگرام کے مطابق حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو ختم کرنے کے لیے مصر پہنچ گیا تھا‘ لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت کہ 17رمضان المبارک کی رات حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو ایسی تکلیف ہو گئی کہ وہ فجر کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد نہ آ سکے اور انہوں نے ایک دوسرے صاحب خارجہ بن حبیب کو حکم دیا کہ وہ ان کی جگہ مسجد جا کر نماز پڑھائیں۔ چنانچہ وہ آئے اور نماز پڑھانے کے لیے امام کے مصلیٰ پر کھڑے ہوئے تو عمرونے ان کو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سمجھ کر تلوار سے وار کیا اور وہ وہیں شہید ہو گئے۔ عمرو گرفتار کر لیاگیا۔ لوگ اس کو پکڑ کر مصر کے امیر و حاکم عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس لے گئے ‘ اس نے دیکھا کہ لوگ ان کو امیر کے لفظ سے مخاطب کر رہے ہیں ‘ اس نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ بتلایا گیا کہ یہ مصر کے امیر و حاکم عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس نے کہا میں نے جس شخص کو قتل کیا ہے وہ کون تھا؟ بتلایا گیا کہ وہ خارجہ بن حبیب تھا۔ اُس بدبخت نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے کہا : اے فاسق! میں نے تجھ کو قتل کرنے کا ارادہ کیاتھا۔ حضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تو نے یہ ارادہ کیا تھا اور اللہ تعالیٰ کا وہ ارادہ تھا جو ہو گیا ۔ اس کے بعد خارجہ بن حبیب کے قصاص میں عمرو تمیمی کو قتل کر دیا گیا۔

ان میں تیسرا خبیث ترین اور شقی ترین بدبخت عبدالرحمن بن ملجم اپنے پروگرام کے مطابق کوفہ پہنچ گیا‘ وہ 17رمضان المبارک کو فجرسے پہلے مسجد کے راستے میں چھپ کر بیٹھ گیا ‘ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ وہ گھر سے نکل کر الصلوٰۃ والسلام پکارتے ہوئے اور لوگوں کو نماز کے لیے بلاتے ہوئے مسجد تشریف لاتے۔ اس دن بھی حسبِ معمول اسی طرح تشریف لا رہے تھے کہ بدبخت ابن ملجم نے سامنے سے آ کر آپ کی پیشانی پر تلوار سے وار کیا اور بھاگا‘ لیکن تعاقب کر کے لوگوں نے اسے پکڑ لیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بڑے صاحبزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اگر میں زندہ رہا تو اس قاتل ابن ملجم کے بارے میں جیسا چاہوں گا فیصلہ کروں گا‘ چاہوں تو معاف کر دوں اور چاہوں تو قصاص میں قتل کرا دوں‘ اور اگر میں فوت ہو جاؤں تو پھر اس کو شرعی قانون قصاص کے مطابق قتل کر دیا جائے لیکن مثلہ نہ کیا جائے (یعنی ہاتھ پاؤں وغیرہ اعضاء الگ الگ نہ کاٹے جائیں) حضرت علی رضی اللہ عنہ ابن ملجم کی اس ضرب کے نتیجے میں شہید ہو گئے تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے حکم سے اس بدبخت کو قتل کردیا گیا۔ (معارف الحدیث : ۸/۳۹۹)