اللہ سے تجارت کرنے والے کو کبھی خسارا نہیں ہوتا

اللہ سے تجارت کرنے والے کو کبھی خسارا نہیں ہوتا

دو شخص آپس میں شریک تھے ‘ ان کے پاس آٹھ ہزار اشرفیاں جمع ہو گئیں۔ ایک چونکہ پیشے سے واقف تھا اور دوسرا ناواقف تھا ‘ اس لیے اس واقف کار نے ناواقف سے کہا کہ اب ہمارا نباہ مشکل ہے ‘ آپ اپنا حق لے کر الگ ہو جائیے ‘ آپ کام کاج سے ناواقف ہیں ‘ چنانچہ دونوں نے اپنے اپنے حصے الگ کر لیے اور جدا ہو گئے۔

پھر پیشے سے واقف کار شخص نے بادشاہ کے مر جانے کے بعد اس کا شاہی محل ایک ہزار دینار میں خریدا‘ اور اپنے ساتھی کو بلا کر اسے دکھایا اور کہا: بتلاؤ! میں نے کیسی چیز خریدی ہے؟ اس کے ساتھی نے بڑی تعریف کی اور یہاں سے باہر چلا ‘ اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور کہا: خدایا! اس میرے ساتھی نے تو ایک ہزار دینار کا قصر دنیوی خریدلیا ہے ‘ اور میں تجھ سے جنت کا محل چاہتا ہوں۔ میں تیرے نام پر تیرے مسکین بندوں پر ایک ہزار دینار خرچ کرتا ہوں۔ چنانچہ اس نے ایک ہزار دینار راہِ خدا میں خرچ کر دیے۔

پھر اس دنیا دار شخص نے ایک زمانے کے بعد ایک ہزار دینار خرچ کر کے اپنا نکاح کیا۔ دعوت میں اس پرانے شریک کو بھی بلایا اور اس سے ذکر کیا کہ میں نے ایک ہزار دینار خرچ کر کے اس عورت سے شادی کی ہے ‘ اس کے ساتھی نے اس کی بھی تعریف کی۔ باہر آ کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرنے کی نیت سے ایک ہزار دینار نکالے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ الٰہی ! میرے ساتھی نے اتنی ہی رقم خرچ کر کے یہاں ایک عورت حاصل کی ہے ‘ اور میں اس رقم سے تجھ سے حورعین کا طالب ہوں۔ اور پھر وہ رقم بھی راہِ خدا میں صدقہ کر دی۔

پھر کچھ مدت کے بعد اس دنیا دار نے اس کو بلا کر کہا کہ دو ہزار دینار کے دو باغ میں نے خرید لیے ہیں‘ دیکھ لو کیسے ہیں؟ اس نے دیکھ کر بہت تعریف کی اور باہر آ کر اپنی عادت کے مطابق بارگاہ جناب باری تعالیٰ میں عرض کی کہ خدایا! میرے ساتھی نے دو ہزار دینار کے دو باغ یہاں خرید لیے ہیں‘ میں تجھ سے جنت کے دو باغ چاہتا ہوں اور دو ہزار دینار تیرے نام صدقہ ہیں۔ چنانچہ اس رقم کو مستحقوں میں تقسیم کر دیا۔

پھر جب فرشتہ ان کو فوت کر کے لے گیا ‘ اس صدقہ کرنے والے کو جنت کے محل میں پہنچا دیا ‘ جہاں ایک حسین عورت بھی اسے ملی‘ اور اسے دو باغ بھی دیے گئے اور وہ نعمتیں ملیں جنہیں بجز خدا تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا ‘ تو اسے اپنا وہ ساتھی یاد آ گیا ۔ فرشتے نے بتلایا کہ وہ تو جہنم میں ہے۔ تم اگر چاہو تو جھانک کر اُسے دیکھ سکتے ہو ۔ اُس نے جب اسے جہنم کے اندر جلتے دیکھا تو اس سے کہا کہ قریب تھا کہ تو مجھے بھی چکمہ دے جاتا اور یہ تو رب تعالیٰ کی مہربانی ہوئی کہ میں بچ گیا۔ (تفسیر ابن کثیر : ۴/۳۶۷، ۳۶۸)