جنت میں موسیٰ علیہ السلام کی رفاقت کا راز

انبیائے کرام کی سیرت پر لکھی جانے والی کتابوں میں ایک واقعہ کا کثرت سے ذکر آتا ہے۔ ایک دفعہ سیدنا موسی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا:
’’اے میرے پروردگار! مجھے اس آدمی کے بارے میں بتا، جو جنت میں میرا رفیق ہو گا۔‘‘

موسیٰ علیہ السلام کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
تمہاری خواہش ہے کہ اس دنیا ہی میں اپنے جنتی ساتھی کو دیکھ لو، تو فلاں لکڑہارے کے پاس جائو۔ وہی جنت میں تمہارا رفیق ہو گا، چنانچہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اس لکڑہارے کے پاس گئے، جس کی اللہ تعالیٰ نے نشاندہی کی تھی، اس کے دروازے پر پہنچے۔ اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کی۔ لکڑہارے نے انہیں اندر آنے کی اجازت دی۔ جب موسیٰ علیہ السلام گھر کے اندر داخل ہوئے تو لکڑہارے نے ان کا خیر مقدم کیا۔ ابھی حال احوال پوچھنے کی نوبت بھی نہیں آئی تھی کہ لکڑ ہارے نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا: ’’حضور! برائے مہربانی آپ چند لمحے انتظار فرمائیں، میں ابھی آتا ہوں۔‘‘

اتنا کہنے کے بعد لکڑہارا ایک کمرے میں چلا گیا۔ اس کمرے میں ایک بہت بوڑھا شخص لیٹا ہوا تھا۔ حرکت کرنے کے قابل بھی نہیں تھا، لکڑہارے نے اسے سہارا دے کر اٹھایا اور اس کی صفائی کرنے لگا۔ جب اس کی صفائی سے فارغ ہو چکا تو اسے کھلایا پلایا اورآرام سے لٹا دیا۔ جب لکڑہارا بوڑھے شخص کو لٹا کر واپس آنے لگا تو بوڑھے نے آہستہ سے اپنا ہونٹ ہلایا۔ اس کی بات سمجھ میں آنے والی نہیں تھی۔ بعد ازاں لکڑہارا سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے پاس آ گیا۔

سیدنا موسیٰ علیہ السلام اس لکڑہارے کی ساری حرکات و سکنات ملاحظہ فرما رہے تھے۔انہوں نے لکڑہارے سے دریافت فرمایا کہ وہ بوڑھا شخص کون ہے؟ لکڑہارے نے جواب دیا کہ وہ میرے والد ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کے ایک سوال کے جواب میں لکڑہارے نے یہ بھی بتلایا کہ وہ اپنے بوڑھے والد کی کئی سال سے خدمت کر رہا ہے۔

سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے لکڑہارے سے دریافت فرمایا: اچھا یہ بتلائو کہ تمہارے والد نے جب اپنا ہونٹ ہلایا تو اس نے کیا کہا؟ لکڑہارے نے جواب دیا کہ میرے والد نے میرے لئے یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ! قیامت کے دن میرے بیٹے کو اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام کا رفیق بنا۔
اس وقت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے لکڑہارے کی اہمیت اور عظمت کا رازسمجھ میں آیا۔