چین، بھارت کا نیا دردِسر

بھارت کشمیر کے مسئلے کو داخلی اور اٹوٹ انگ کہہ کر خراب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور ایسے میں کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایک جلسے میں بھارت کو خبردار کیا ہے کہ وہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی حیثیت کو نظرانداز نہ کرے ۔پاکستان سے بات چیت کرکے کشمیر کے مسئلے کا حل تلاش کیا جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہم یہ بات کرتے ہیں تو کچھ لوگ ناراض ہوتے ہیں اور شا م کو ٹیلی ویژن چینلز پر تنقید کا طوفان کھڑ اکیا جاتا ہے ۔محبوبہ مفتی اس خطاب میں مسئلہ کشمیر کو ایک سہ فریقی مسئلہ بتارہی تھیں انہوںنے کہا بھارتی حکومت کشمیریوں کو زبردستی گھروں پر ترنگا لہرانے پر مجبور کرنے کی بجائے چین کی طرف سے قبضے میں لی گئی زمین پر ترنگا لہرائے ۔ اسی دوران امریکی خبررساں ادارے نے سری نگر سے ایک رپورٹ میں کشمیر کی وجہ سے بھارت کو درپیش نئے چیلنج پر بات کی ہے ۔رپورٹ میں بھارت کو درپیش علاقائی چیلنجز پر بات کرتے ہوئے۔ سابق فوجی افسروں ،سابق ماہر سفارت کاروں اور کئی مغربی ماہرین سیاسیات نے یہ تسلیم کیا ہے کہ گزشتہ سات عشروں میں بھارت کی ساری توجہ پاکستان پر مرکوز تھی اور بھارت پاکستان کو ہی اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتا تھا مگر دوسال قبل چین کے ساتھ ہونے والے تصادم نے بھارت کو چین کی طرف سے درپیش چیلنج کی جانب متوجہ کیا اور اب اس کی ساری توجہ چینی خطرے کی طرف مبذول ہے ۔ان ماہرین میں بھارتی فوج کے لداخ میں تعینات رہنے والے سابق کمانڈر جنرل ہوڈے بھی شامل تھے ۔جو یہ سمجھتے ہیں کہ مدتوں بھارت چین کو فوجی خطرہ نہیں سمجھتا تھا مگر دوسال پہلے ہونے والے تصادم نے بھارت کو اس خطرے کا احساس دلایا ۔یہ جنگ قرونِ وسطیٰ کی طرح ڈنڈوں پتھروں اور گھونسوں لاتوں سے غیر آتشیں ہتھیاروںکے ذریعے لڑی گئی تھی جس میں بھارت کے بیس اور چین کے چار فوجی ہلاک ہوئے تھے ۔اس تنازعے کو حل کرنے کے لئے اب تک چین اور بھارت کے فوجی حکام کے درمیان مذاکرات کے سترہ دور بے نتیجہ رہے ہیں۔پانچ اگست 2019کے بھارتی اقدام پر پاکستان کا سخت ردعمل تو متوقع تھا مگر چین کی طرف سے بھی سخت ردعمل سامنے آیا اور چین کی درخواست پر اس معاملے پر سلامتی کونسل میں بحث بھی ہوئی۔بھارت کے سفارتی اور فوجی ماہرین کی طرح امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی کے پروفیسر پاول سٹینی لینڈ اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ بھارت نے برسوں کشمیر میں عوامی جذبات کی مخالفت کے باوجود بیرونی دبائو کا کامیابی سے مقابلہ کیامگر اب دہلی کے پالیسی سازوں کو ایک اس چیلنج میں بنیادی تبدیلی درپیش ہے وہ یہ ہے کہ خطے کی بڑھتی ہوئی طاقت چین کشمیر پر پاکستان کے موقف کی کھلی حمایت کر رہا ہے اور اس بات نے پاکستان کی صلاحیت اور اثرو رسوخ کو بڑھایا ہے۔یوں محبوبہ مفتی اور بھارتی ماہرین کی باتوں کو جوڑ کر پڑھا جائے تو تصویر یوں بنتی ہے کہ بھارت نے کشمیر پر پاکستان کو نظر انداز کرکے یکطرفہ فیصلے کرنے کے شوق میں خود کو مسائل کی ایک دلدل میں لاکھڑا کیا ہے۔ یہ رپورٹ اس وقت سامنے آئی ہے جب بھارت کی طرف سے کشمیر کا مسئلہ داخلی قرار دے کر اس کی شناخت مٹانے کی کوشش کے تین سال مکمل ہوگئے ہیں اور کشمیری عوام اور پاکستان کے ساتھ ساتھ چین بھی اس قدم کی بدستور مخالفت جاری رکھے ہوئے ہیں۔کشمیر یوں کی مخالفت کا ثبوت یہ ہے کہ کشمیر کی پوری قیادت بدستور جیلوں میں بند ہے ۔پاکستان کی مخالفت کا ثبوت یہ ہے کہ وہ تین سال سے بھارت کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات منقطع کئے ہوئے ہے جبکہ چین کی مخالفت کی یاد ڈھائی برس قبل شروع ہونے والے تنازعے کے حل کے مذاکرات کے ستر ہ ادوار کا بے اثر ہونا ہے ۔حقیقت بھی یہی ہے کہ کشمیر ایک سہ فریقی مسئلہ ہے اور ا س کا کوئی معاملہ بھی کسی ایک فریق کا اندرونی معاملہ نہیں ۔اس حد تک بات ٹھیک ہے کہ بھارتی آئین میں کشمیر کو خصوصی شناخت دینے والی دفعہ370 بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور کشمیری راہنما شیخ محمد عبداللہ کے طویل دوستانہ تعلقات کا مظہر تھی ۔اسی امید پر نہرو نے شیخ عبداللہ کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا تھا ۔بھارت کے آئین کی تیاری کے موقع پر سردار پٹیل کا سخت گیر کانگریسی گروپ ایسی کسی شق اور دفعہ کا کھلا مخالف تھا مگر پنڈت نہرو نے امبیڈ کرکی منت سماجت کرکے اور شیخ عبداللہ کے ساتھ اپنے وعدوں اور تعلقات کا واسطہ دے کر اس دفعہ کو آئین کا حصہ بنوایا۔جس کے تحت دہلی کے پاس صرف خارجہ امور ،مواصلات اور دفاع کے تین شعبے تھے جبکہ باقی تمام اختیارات مقبوضہ جموں وکشمیر کی حکومت کو حاصل تھے ۔اس دفعہ کے تحت مہاراجہ ہری سنگھ کے سٹیٹ سبجیکٹ قانون کو من وعن اپنا کر آئین کا حصہ بنایا گیا ۔اس دفعہ کے تحت مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام کو صدر اور وزیر اعظم کے عہدے اپناآئین اور پرچم کا حق دیا گیا ۔ چند برس بعدہی صدر اور وزیر اعظم کے عہدے ختم کرکے گورنر اور وزیر اعلیٰ میں بدل دئیے گئے۔بھارتی آڈیٹر جنرل اور الیکشن کمیشن کو کشمیر تک توسیع دی گئی ۔الحاق کو حتمی قرار دیا گیا آل انڈیا سروسز یعنی انڈین ایڈمنسٹریٹو سروسز اور انڈین پولیس سروسز کا دائرہ بھی کشمیر تک بڑھایاگیا۔1964میں بھارتی آئین کی 356اور357کے تحت ریاستی حکومت کی ناکامی کی صورت میں صدر راج کا اختیار دے دیا گیا۔ اس سارے ناجائز تجاوزپر بھی پاکستان نے ہر مرحلے پر اپنا احتجاج ریکارڈ کیا۔1975میں اندراگاندھی اور شیخ عبداللہ کا معاہدہ ایک اندرونی معاملہ تھا جو کشمیر کی رہی سہی خودمختاری کو چاٹ گیا اور بھارتی سپریم کورٹ کا دائرہ جموں وکشمیر تک وسیع ہوگیا ۔پاکستان نے عام ہڑتال کی اپیل کی ۔جس کا دنیا بھر کے ساتھ ساتھ کشمیر میں بھرپور اثر ہو ا اور اپنی ہڑتال کی کال کی اس عوامی پزیرائی کو دیکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے اعتماد کے ساتھ اعلان کیا کشمیریوں نے اس معاہدے کو کلی طور پر مسترد کر دیا ہے۔اس لحاظ سے دفعہ 370دہلی کے حاکم اور سری نگر کے محکوم حکمرانوں کے درمیان ایک معاہدہ تھا مگر یہ بھارت کے ڈھانچے میں کشمیر کی الگ شناخت کی علامت تھی ۔بھارت نے آزادی کی اس عمارت کو پہلے خود ہی ویران کیا پھر اس کے درودیوار اکھاڑے اور پانچ اگست کو اس کا ملبہ بھی چرانے کی کوشش کی تاکہ ثبوت اور آثار باقی نہ رہیں۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں سے ہوشیار