حقیقی آزادی کا دن!!؟؟

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک مرتبہ پھر اس امر کا عندیہ دیا ہے کہ وہ آج یعنی تیرہ اگست کو بتانے جارہے ہیں کہ حقیقی آزادی کیسے حاصل کی جاتی ہے؟ سابق وزیر اعظم پہلے بھی اپنے خطاب کے حوالے سے تجسس پیدا کرنے کی شہرت رکھتے ہیں لیکن کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مصداق ہی بات سامنے آنے کا تجربہ ہے عمران خان ایک بڑی پارٹی کے سربراہ اور دو صوبوں میں اب بھی ان کی حکومت ہے بطور وزیر اعظم ان کو حقیقی آزادی کے لئے اقدامات کرنے کا ان کو خیال پہلے کیوں نہ آیا اور بیس بائیس سالوں کی ا ن کی جدوجہد کا حاصل کیا تھا بہرحال محروم اقتدار ہونے کے بعد قوم کو وہ جس حقیقی آزادی دلانے کا عزم کر رکھا ہے آج کے جلسے میں وہ کوئی ٹھوس حقیقی اور قابل عمل روڈ میپ دیتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوجائے کہ قوم کو چودہ اگست 1947ء کو حقیقی آزادی نہ ملی تھی یا پھر وہ قائد اعظم محمد علی جناح کے کسی ادھورے مشن کی تکمیل کی ٹھان چکے ہیں تو ایسا کرنے کے لئے ان کے پاس یہ سنہری موقع اس لئے ہے کہ ان کو ملک کے جوانوں اور نوجوانوں سے لے کر بچوں تک کی حمایت حاصل ہے اور وہ اس تائید و حمایت کی قوت کا درست استعمال کرکے جس قسم کی زنجیریں توڑنے کا عزم رکھتے ہیں اس میں پیشرفت کی عملی طور پر قیادت کریں تو ان کی ناکامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہمیں بجا طور پر توقع ہے کہ اس مرتبہ وہ حسب سابق کردار کی بجائے نوجوانوں اور ملک و قوم کو ایسا کوئی لائحہ عمل ضرور دیں گے جس پر عمل پیرا ہو کر قوم حقیقی آزادی سے سرشار ہو جس کے نتیجے میں ہر قسم کے تعصبات سرمایہ داری ‘ جاگیرداری ‘ مذہبی قیادت کے روایتی کرداروں سمیت ہر اس قوت و طاقت سے چھٹکارا حاصل ہو سکے گی جو قوم کو مطلوب ہے امتیازی قوانین اور ظلم و ستم و استحصال کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی اور قوم حقیقی آزادی نہ سہی برصغیر پاک و ہند کی تقسیم اور اس سے ملنے والی آزادی کے ثمرات سے مستفید ہو سکے گی اور اگر اس مرتبہ بھی حقیقی آزادی کا کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں دیا جا سکا تو پھر ان کے نوجوان پیروکاروں اور پارٹی کارکنوں کو سوچنا ہوگا کہ ان کی قیادت بار بار جس آزادی اور تحفظ کا عندیہ دیتی آئی ہے جس انصاف اور اچھی حکمرانی و تبدیلی کی دعویدار رہی ہے ان کی وہ منزل آخر کہاں اور کیسے ملے گی اور اب تک کی ان کی سعی لاحاصل ٹھہرنے کے اسباب و علل کیا ہیں اور ایسا کیا لائحہ عمل اختیار کیا جانا چاہئے جس سے منزل کا حصول آسان ہو۔
پولیس کا کیا قصور
پنجاب میںپچیس مئی کے واقعے میں ملوث بارہ ایس ایچ اوز کی معطلی اور تحقیقات کا آغاز اور پارلیمنٹ لاجز میں چھپے لوگوں کا جلد پنجاب میں استقبال کرنے کا عمل محکمہ داخلہ پنجاب کے وزیر کی انتقامی کارروائی ہے یا پھر واقعی اس کی ضرورت ہے اس سے قطع نظر کہ اس دن حکومتی ہدایات پرعمل کرنے والے پولیس افسروں کے خلاف اس طرح کی اجتماعی کارروائی کیا واقعی ضروری تھی اور قانون کا اس حوالے سے کیا کردار ہوگا ان تمام معاملات کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے تو اس طرح کی کارروائی کے بعد ملک میں پولیس افسران اور بیورو کریسی کس طرح سے کسی صوبائی حکومت کے ساتھ کام کر سکے گی اور حاکم وقت کے احکامات بجا لائے گی یا پھر حکم عدولی کی مرتکب ہوگی یہ ایک اہم سوال ہے ۔ تحریک ا نصاف کی حکومتوں کو بیورو کریسی سے ویسے بھی پہلے سے شکایات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور پولیس کا ہر دور میں سیاسی استعمال اور مخالفین کا مکو ٹھپنے کا عمل بھی کوئی راز کی بات نہیں 25مئی کے واقعے کی ذمہ دار پولیس افسران کو ٹھہرانے کی بجائے ان کو حکم دینے والوں کے خلاف کارروائی تک محدود رکھا جائے تو موزوں ہو گا پولیس فورس اطاعت کی پابند ہے پہلی حکومت کی ہویا پھر موجودہ حکومت اور محکمہ داخلہ کے صوبائی وزیر کی سرکاری ملازمین کو سیاسی معاملات میں گھسیٹنے اور ان کے خلاف انتقامی کارروائی کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے بہتر ہو گا کہ سیاسی لڑائی سیاسی میدان میں لڑی جائے اور پولیس فورس کو مطعون کرنے اور ان کو ملوث کرنے سے اجتناب کیا جائے ۔

مزید پڑھیں:  شہر کے بڑے ہسپتالوں میں ڈسپلن کا فقدان