مفاد پرستی کی سیاست تبدیل ہونی چاہئے

ایک ایسے وقت میںجب قوم جشن آزادی کی خوشیاں منارہی ہے اس دن خوشی اور مسرت کے جذبات کے اظہار کے ساتھ ساتھ اگر خود احتسابی پر بھی غور کیا جائے اور ملکی سیاسی و انتظامی امور کو چلانے کے حوالے سے اپنے اختیار کردہ یا پھر مروجہ امور کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پاکستان کے معروض وجود میں آنے کے بعد یہاں جمہوریت اور پارلیمان کی مضبوطی میں سب سے بڑی رکاوٹ ایک مخصوص طبقہ رہا ہے جو آج بھی سیاسی میدان میں موجود ہے اور جمہوریت و آئین کی بالادستی کا راگ الاپ کر نہیں تھکتاعوام کو ان عناصر کا بخوبی علم ہے کہ کس طرح اشرافیہ نے چور دروازے کا سہارا لیتے ہوئے سیاست میںاچانک نمودار ہوا اور راتوں رات سیاستدان و حکمران بن گئے۔چند سیاسی شخصیات جنہوں نے حقیقی معنوں میں اس ملک میں جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے قربانیاں دیں وہ سب کے سامنے ہیںمگر یہاں ذکر اس اشرافیہ کا ہو رہا ہے جو حکمران جماعت کے ساتھ ہر دور میں کھڑا دکھائی دیتا ہے۔جن کا کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ حکمران جماعت یا پھر سیاسی جماعتوں کے وفادار ہوتے ہیں بلکہ یہ مرغ بادنما قسم کے عناصر اقتدار کے پجاری ہوتے ہیں جن کا مقصد اقتدار حاصل کرنا اوراقتدار کے لئے کسی سیاسی جماعت میں شمولیت یا پھر سیاسی جماعت چھوڑنا ہوتا ہے آج ملک کے بڑے ایوانوں میں ان کی موجودگی واضح طور پر دکھائی دیتی ہے جس کے ذمہ دار بھی وہ سیاسی رہنما ہیں جو حکومت سازی کے لئے مصلحت پسندی کا شکار ہو کر ایسے لوگوں کو اپنی صفوں میں شامل کر لیتے ہیں اس طرح کے ہر رہنما ہمارے نظام کو کمزور کرنے کے عمل میں شریک سمجھے جائیں تو غلط نہ ہو گا اس آلودہ سیاسی ثقافت کے خاتمے کے لئے کوششوں کا دعویٰ تو بہت کیا جاتا رہا مگر ہر دفعہ مصلحت پسندی کا شکار ہو کر اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔مسئلہ یہ ہے کہ قبل ازیں باری باری سیاسی جماعتیں اقتدار میں آتی رہیں اور باری کا انتظار ہوتا رہا پھر ایک نئی سیاسی جماعت نے اس سارے نظام کو چیلنج کرکے کامیابی حاصل کی مگر اقتدار میں آنے کے بعد افسوسناک طور پر اس کا طرز عمل تبدیل ہوا حالانکہ اگر اپنی ترجیحات پر ٹھہری رہتی اور اپنے منشور اور وعدوں میں پیش رفت کر پاتی یا کم از کم اس کے لئے سنجیدہ سعی واضح طور پر نظر آتی تو ان سے بندھی امیدوں کے بر آنے کا انتظار کیا جا سکتا تھا قابل ذکر امر یہ ہے کہ اس سیاسی جماعت کو خاص طور پر نوجوانوں کی سپورٹ حاصل رہی اور نوجوانوں نے اس سے انصاف تبدیلی ملک کی معاشی صورتحال کی بہتری اچھی حکمرانی سمیت ہر طرح سے اس سے اچھی توقعات وابستہ کر لیں جو پوری نہ ہوئیں اقتدار سے عدم اعتماد کے ذریعے اور اتحادی ساتھیوں کا اعتماد کھو دینے کے بعد بھی اگر اپنے منشور پر کاربند ہوتی تب بھی ان سے امیدیں وابستہ رکھے رکھنے کی گنجائش تھی مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ جماعت کچھ امتداد زمانہ کا شکار ہے تو کچھ ان کی ترجیحات میں تبدیلی آگئی ہے جو حکمت عملی اور بردباری و صبر و برداشت کے ساتھ صورتحال سے نکلنے کی کوشش کی بجائے غیر ضروری طور پر ایسے تنازعات اور بیانیہ میں غیر محسوس طور پر اس طرح الجھ گئی ہے کہ اب اس سے نکلنے کی راہ کھوٹی ہوتی جارہی ہے مستزاد اب یہ بھی روایتی انداز فکر اور طریقہ کار کے ساتھ اقتدار کی غلام گردشوں میں واپسی کا راستہ تلاش کر رہی ہے جس کے بعد ماضی کی سیاسی جماعتوں اور اس میں کوئی نمایاں فرق باقی نہیں رہا اب بھی اگر غیر جمہوری قوتوں کی بجائے عوام کی طاقت پر بھروسہ کرنے کا فیصلہ کرکے عوام کی تائید و حمایت کو اولیت دینے کا فیصلہ کیا جائے اور بہکنے کی غلطی نہ کی جائے تو متبادل قوت کے طور پر بڑی سیاسی جماعتوں کو چیلنج کرنے کا موقع موجو ہے جس سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے اس امر کی ضرورت کا اب شدت سے احساس ہونے لگا ہے کہ وطن عزیز میں حقیقی معنوں میں عوامی حمایت اور شفاف طریقے سے کامیابی حاصل کرکے سیاسی جماعتوں اور اتحادوں کی حکومتیں بنیں اور جمہوریت کو مضبوط بنانے اور اس کے استحکام کے تقاضے پورے کئے جاتے تو آج ملک کی یہ حالت نہ ہوتی۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں سیاسی جماعتوں کے قول و فعل میں بہت تضادات موجود ہیں جو ملک میںحقیقی جمہوری نظام لانے اور حکومت چلانے کی راہ میںسب سے بڑی رکاوٹ ہے اگر اسی طرح سے سیاست چلتی رہی تو موقع پرست سیاسی نظام کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہیں گے آج دیکھا جائے تو ملک میں سب سے بڑا مسئلہ پارلیمانی اور قانونی بالادستی کا ہے جسے یقینی بنا کر موقع پرست اورمفاد پرست ٹولے کی سیاست کا خاتمہ ممکن بنایا جایا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  اسرائیل حماس جنگ کے 200دن