تجسس سے بھرپور طریقہ تفتیش اور قاتل کی گرفتاری

محسن ایک واقعہ معتضد باللہ کا بیان کرتے ہیں کہ ان کے خدام میں سے ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں خلیفہ کے محل پر دریائے دجلہ کے کنارے کھڑا تھا۔ میں نے ایک شکاری کو دیکھا جس نے دریا میں اپنا جال ڈالا تھا۔ جب وہ بھاری ہوا تو اس کو کھینچا‘ جب اس کو لے کر اس کا منہ کھولا تو اس میں اینٹیں بھری ہوئی تھیں جن کے بیچ میں ایک ہاتھ رکھا ہوا تھا جو مہندی سے رنگا ہوا تھا۔معتضد باللہ کے حکم سے وہ تھیلا مع اینٹوں اور ہاتھ کے حاضر کیا گیا۔ خلیفہ پر اس کا سخت اثر ہوا۔فرمایا شکاری سے کہو کہ وہ اس موقع کے آگے پیچھے مختلف مقامات پر دوبارہ جال ڈالے۔ شکاری نے ایسا کیا تو ایک اور تھیلا نکلا جس سے ٹانگ برآمد ہوئی۔ پھر تلاش کیا گیا تو کوئی چیز نہ ملی۔

اس واقعہ سے معتضد باللہ پر سخت رنج و غم طاری ہو گیا کہ میری موجودگی میں اس شہر میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو انسان کو قتل کر کے اس کے اعضا کاٹ ڈالتے ہیں اور میں گرفتار نہ کر سکوں۔ یہ کیا سیاست ہے؟ کہتے ہیں کہ تمام دن کھانا نہیں کھایا) اس پر غور کرتے رہے( جب اگلا دن ہوا تو اپنے ایک معتمد کو بلا کر ایک خالی تھیلا اور حکم دیا کہ یہ تھیلا لے کے بغداد کے تھیلا بنانے والے کاریگروں میں گھومو۔ اگر ان میں کوئی شخص اس کو پہنچان لے کہ یہ اس کا بنایا ہوا ہے تو اس سے پوچھو کہ یہ تم نے کس کے ہاتھ فروخت کیا تھا۔ اس سے خریدار کا حال معلوم کر کے اس سے مل کر معلوم کرو کہ اس نے کس کو بیچا اور کسی کو اس تفتیش کی وجہ سے مت بتانا۔

وہ شخص تین دن غائب رہا‘ پھر اس نے آ کر بیان کیا کہ وہ برابر اس کی جستجو میں چمڑے والوں میں پھرتا رہا۔ یہاں تک کہ اس کے بنانے والے نے اس کو پہچان لیا اور اس سے میں نے پوچھا کہ تم نے یہ کس کو فروخت کیا تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے عطر فروش کے ہاتھوں بیچا تھا جو سوق یحییٰ میں ہے۔ پھر عطر فروش سے مل کر اس کو تھیلا دکھایا۔ اس نے دیکھ کر کہا: ’’ ارے یہ تھیلا تمہارے ہاتھ کہاں سے آ گیا؟‘‘ میں نے کہا کہ کیا تم اسے پہنچانتے ہو؟ اس نے کہا ہاں‘ تین مہینے ہوئے مجھ سے دس تھیلے فلاں ہاشمی نے خریدے تھے۔ میں نہیں جانتا کہ کس غرض سے اس نے لئے تھے یہ تھیلا ان ہی میں سے ہے۔ میں نے کہا وہ ہاشمی کون ہے؟

اس نے کہا کہ وہ علی بن ریط کے بیٹوں سے ہے جو مہدی کی اولاد میں سے تھا۔ اس کا یہ نام ہے بڑا معزز شخص ہے مگر بدترین انسان اور سب سے زیادہ ظالم اور معزز مسلمان عورتوں کے لئے ایک فساد عظیم ہے اور ان پر فریب کاری میں اس سے زیادہ مکار کوئی نہ ہوگا اور دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں جو اس کی ایذا رسانی اور حکومت میں اس کے رسوخ اور مال دولت کے خوف کی وجہ سے معتضد کو اس کے مظالم سے خبردار کر سکے اور وہ ہمیشہ مجھ سے باتیں کیا کرتا ہے اور اس میں اس کی گندی داستانیں سنا کرتا ہوں۔

یہاں تک کہ ایک دن اس نے بیان کیا کہ وہ فلاں مغنیہ کی باندی ہے کئی برس سے عاشق ہے اور وہ ایسی حسینہ ہے گویا سونے کی منقش اشرفی ہے اور چودھویں رات کے چاند جیسی۔ اعلیٰ درجہ کی گانے والی ہے اس نے اس کی مالکہ سے سودا کرنا چاہا مگر بن نہیں سکا۔ چند ایام گزر گئے تو اس کو معلوم ہوا کہ اس کی مالکہ اس کو ایک گاہک کو بیچ دینا چاہتی ہے وہ آ گیا ہے۔ اس نے اس پر ہزاروں دینار لگا دیئے ہیں۔ یہ سن کر اس نے مالکہ کو اپنی طاقت کے زور سے اس کو مجبور کیا کہ اس کو صرف تین دن کے لئے اس کے سپرد کر دے تو اس نے ڈر کر اس کو بھیج دیا۔

پھر جب تین دن گزر گئے تو اس کو غصب کر گیا اور اس کو ایسا غائب کیا کہ کچھ پتہ نہیں ہے اور یہ کہہ رہا ہے کہ وہ گھر سے بھاگ گئی ہے اور اس کے ہمسایہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے قتل کر دیا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے قبضہ میں ہے اور اس کی مالکہ نے ماتم برپا کر رکھا ہے۔ آتی ہے اور دروازہ پر چلاتی ہے اور منہ سیاہ کرلیا‘ مگر کچھ بھی نتیجہ نہیں نکلا۔ جب معتضد نے یہ واقعہ سنا تو اس انکشاف پر اللہ کا سجدہ شکر ادا کیا اور کچھ لوگوں کو بھیجا جو اس ہاشمی کو جکڑ کر لے آئے اور مغنیہ حاضر کی گئی اور ہاتھ پائوں نکال کر ہاشمی کو دکھائے جب اس نے دیکھا تو چہرے کا رنگ بدل گیا اور اس کو اپنے ہلاک ہونے کا یقین ہو گیا اور اقرار کر لیا۔ معتضد نے حکم دیا کہ مالکہ کو بیت المال سے جاریہ کی قیمت دی جائے۔ اس کے بعد ہاشمی کو قید کر دیا گیا۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کو قتل کرا دیا گیا اور بعض کہتے ہیں کہ قید میں مر گیا۔