عورت کا حسن کردار روح کی پاکیزگی ہے

عورت کا حسن کردار روح کی پاکیزگی ہے

ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ تندرست رہے۔اسی طرح خواتین بھی تندرست رہنا چاہتی ہیں، مگر خواتین میں ایک اور بھی جذبہ ہوتا ہے اور وہ ہے خوبصورتی بڑھانے اور سنگھار کرنے کا۔ یہ دونوں جذبے ہمارے جسم سے تعلق رکھتے ہیں، یعنی تندرست رہنے اور خوبصورتی بڑھانے کا جذبہ۔ مگر کیا کبھی آپ نے یہ بھی سوچا ہے کہ اپنی روح کی بالیدگی، روح کی صحت اور روح کے حسن کیلئے آپ کیا کرتی ہیں؟ عموماً دیکھا گیا ہے کہ انسان اچھی غذا استعمال کرتا ہے،ورزش کرتا ہے، خوبصورتی بڑھانے والی مصنوعات کا استعمال کرتا ہے۔ یہ ساری چیزیں آپ کے جسم کو تندرست اور خوبصورت بناتی ہیں، اس سے جسمانی اعضاء بہتر طور پر کام انجام دیتے ہیں اور ہر فرد آپ کی تعریف کرنے لگتا ہے کہ آپ نے کیا حسن و صحت پائی اور خواتین اپنی تعریف سن کر بہت خوش ہوتی ہیں۔ خواتین کو اگر ہفت اقلیم بھی مل جائے تو انہیں وہ خوشی نہیں ہوتی جو کسی دوسرے سے اپنے حسن اور صحت کی تعریف سن کر ہوتی ہے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حسن و صحت سے روح کا گہرا تعلق ہے۔ آپ کے حسن اور صحت مند جسم میں ایک روح ہے جس کی پاکیزگی اور خوبصورتی زیادہ معنی رکھتی ہے بہ نسبت خوبصورت اور صحت مند جسم کے۔ روح کو پاکیزہ رکھنے والا انسان ظاہری طور پر بھی خوبصورت ہوتا ہے اور باطنی طور پر بھی اپنے حسن اخلاق سے دوسروں کو مطمئن اور خوش رکھتا ہے، وہ اپنے برتائو سے اپنی عادتوں سے دوسروں میں نہ صرف مقبول ہوتا ہے بلکہ لوگ اس کا احترام اور عزت کرتے ہیں۔

عموماً ایسے لوگوں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ بڑی سے بڑی مشکلوں میں ہونے کے باوجود اپنی زندگی معمول کے مطابق گزارتے ہیں اور کسی کو احساس تک نہیں ہونے دیتے کہ انہیں کس بات کی تکلیف ہے،خواہ انہیں کوئی بڑی بیماری ہو، مالی تنگی کا سامنا ہو یا کسی اور بات کی پریشانی ہو۔ وہ بالکل اپنا کام اسی انداز میں انجام دیتے ہیں جس طرح وہ اپنی صحت مند زندگی میں انجام دیا کرتے تھے۔

روح کی پاکیزگی رکھنے والے اپنا کام خود کرتے ہیں ہر وقت خوش و خرم نظر آتے ہیں، کسی میک اپ کے بغیر ان کا حسن پُرنور ہوتا ہے، پیشانی چمکتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کبھی غور کیا ہے آپ نے؟ یہ صرف اس لئے ہوتا ہے کہ وہ روح کی پاکیزگی پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے جسم اور حسن سے زیادہ اپنی روح کی پرورش کرتے ہیں، انہیں سنوارتے ہیں سجاتے ہیں۔روح کی خوبصورتی اور غذا عبادت ہے۔ نیک اور صالح انسان اپنی روح کو غذا کس طرح دیتا ہے یہ بھی غور طلب بات ہے۔ مثلاً ایک ماں اپنے بچے کی صحت اور تعلیم و تربیت سے متعلق ہمیشہ کوشاں رہتی ہے۔ بچہ ذرا سا بیمار پڑ جائے تو وہ رات بھر بیٹھ کر اس کی تیمار داری کرتی ہے۔ خدا کی بارگاہ میں اس کی صحت اور تندرستی کیلئے گڑ گڑاتی ہے اور جب بچہ خوش اور صحت مند ہوتا ہے تو اس کی روح کو اپنے آپ غذا مل جاتی ہے۔

اسی طرح روح کی پاکیزگی ہمیں ان لوگوں میں بھی دکھائی دیتی ہے جو اپنے غموں سے زیادہ دوسروں کے دکھ کو اپنا سمجھتے ہیں اور ان کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔ گویا دوسروں کی مدد کرنا بھی روح کی پاکیزگی کی علامت ہے۔ خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں روح کی پرورش کرنا آتا ہے جو اپنی روح کو دوسروں کی غیبت،چغلی،کینہ،جھوٹ، بغض جیسے امراض میں مبتلا نہیں کرتے، جو صرف اپنے نفس کو سکون نہیں پہنچاتے بلکہ اپنے نفس پر قابو پاتے ہوئے دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ ایسے لوگ جو دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے ہیں،دوسروں کی مدد کرتے ہیں،اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹ کر دوسروں کو سکھ پہنچاتے ہیں اور اپنے نفس پر ہر ممکن قابو پاتے ہیں وہی انسان پاکیزہ روح رکھتے ہیں۔نفس انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔نوح انسان پر زلزلے سیلاب وغیرہ جیسے عذاب نازل ہوا کرتے ہیں،یہ تب ہوتا ہے جب جسم کی خواہشات روح کی ضرورتوں پر غالب آ جاتی ہیں،تباہی اور بربادی کو انسان خود ہی دعوت دیتا ہے۔ مگر ہم ساری باتیں ماننے سے انکار کرتے ہیں اور خواب خرگوش میں مبتلا رہتے ہیں،جن گناہوں کے سبب ہم پر عذاب آیا ان گناہوں سے ہم پھر بھی توبہ نہیں کرتے۔ ہماری مخاطب تو خاص خواتین ہیں۔ عورتیں گو کہ ملکہ ہیں، اگر وہ چاہیں کہ ان کا گھر گناہوں سے پاک رہے تو رہ سکتا ہے۔ اب بھی وقت ہے اپنا محاسبہ کریں۔اپنی بیمار روح کا علاج کریں،جتنا ہمارا جسم تندرست ہے روح کو بھی اتنا ہی صحتمند بنائیں۔ آپ جانتی ہیں روح کی بالیدگی کے لیے کیا کرنا ہے؟

اس سے پہلے کہ ہم پر کوئی آفت آئے،معافی مانگ کر اپنے آپ کو آنے والے روشن مستقبل کیلئے تیار کر لیں۔ دوسروں سے اپنا مقابلہ نہ کریں۔ دوسروں نے قرآن مجید جیسے لائحہ عمل کو پڑھا ہی نہیں ہے۔ وہ اسلام کی چاشنی سے روشناس ہی نہیں ہوئے ہیں۔ وہ اگر پیاسے ہیں تو مجبور ہیں،دریا ان سے کافی دور ہے۔ مگر ہم تو دریا کے قریب رہ کر بھی پیاسے ہیں۔ روح کی پیاس بجھانا کوئی بہت بڑا عمل نہیں ہے اور نہ ہی بہت بڑا کام ہے۔ انسان کو اپنی روح کی خوبصورتی اور صحت کیلئے صرف اور صرف اپنے نفس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ آج اگر ہماری روح زخمی ہے تو اس کی وجہ بھی ہم خود ہی ہیں کہ ہم نے گھروں میں نحوستیں پال رکھی ہیں، اپنوں سے ناطہ توڑ لیا ہے، محبت کو بالائے طاق رکھ دیا ہے،دولت کے پجاری ہیں، روح کبھی خوبصورت اور پاکیزہ نہیں ہو سکتی بھلے ہی وہ جسمانی شکل و صورت میں خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ کیونکہ جس انسان کے دل میں کسی اور کے لیے ہمدردی نہ ہو، دوسروں کیلئے پیار نہ ہو،قربانی کا جذبہ نہ ہو، وہ نہ تو جسمانی طور پر خوبصورت کہلاتا ہے اور نہ روحانی طور پر خوبصورت ہو سکتا ہے۔

روح کا سارا حسن عبادت،تقوٰی اور پرہیز گاری پر منحصر ہوتا ہے، انسان پر جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت فرض ہے وہیں ایک انسان کیلئے دوسرے انسان کی تئیں ہمدردی اور بھائی چارگی اور عزت و احترام کا جذبہ بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اگر یہ ساری خوبیاں انسان میں نہ ہوں تو وہ دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہو گا اور آخرت میں بھی۔ اس لیے انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے جسم اور حسن کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ روح کو صحتمند اور پاکیزہ بنانے کی کوشش کرے۔