ترقی و زوال کی علامتیں

فرد اور قوم کے باہمی تعلق اور کردار پر بلامبالغہ ہزاروں کتابیں دنیا کی لائبریریوں میں موجود ہیں۔اسی طرح قوموں کے عروج و زوال پر بھی سینکڑوں کتابیں تصنیف کی جا چکی ہیں افراد و اقوام مغربی ہوں یا مشرقی ‘ افریقی ہوں یا کوئی اور ‘ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ‘ کم و بیش سب کی دنیاوی ترقی و زوال کی داستانیں ایک جیسی ہے ۔ اقوام کی اس فلاسفی پر سب سے مستند ‘ منظم اور رہنما اصول عظیم ماہر عمرانیات و بشریات ابن خلدون نے پیش کئے ہیں۔ اس لئے ان کو تاریخ اور عمرانیات کا بانی تصور کیا جاتا ہے ۔ آپ نے ہسپانیہ میں عربوں کی عظیم سلطنت کی ترقی و زوال پر”العبر” کے نام سے دو جلدیں لکھ کر یہ بات اقوام عالم کو سمجھائی ہے کہ اقوام پرعروج و زوال کیسے آتا ہے ۔ لیکن آپ کا اصل کارنامہ ”مقدمہ اور تاریخ ا بن خلدون ” ہے جس کا اردو ترجمہ پاکستان میں دستیاب ہے ۔ ابن خلدون کی تاریخ ابن خلدون کو شہرت اس سبب سے ہوئی کہ آپ نے قوموں کے ”عروج و زوال” کے اصول و داستان قرآن کریم سے اخذ کئے ہیں فارسی کے مشہور ضرب المثل ”ہر عروج کو زوال اور ہرزوال کو عروج ہے” کے مطابق اقوام کا فلسفہ عروج و زوال ایک فطری عمل ہے لیکن اس میں ہر دور اور زمانے کے فطری اسباب و عوامل کے ساتھ انسانوں کے اعمال اور فکرو نظر اور کردار کا بھی بنیادی کردار ہوتا ہے ۔
قرآن کریم میں اس حوالے سے قوم بنی اسرائیل کی داستان مختلف پیرایوں میں بیان ہوئی ہے ۔ بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے نعمتوں کی بارشیں برسائی تھیں دنیا کی اقوام میں ان کو معززو معتبر بنایا تھا۔لیکن پھر وہ خواہشات نفسانی اور دینی و اخلاقی قیود سے تجاوز کرگئی اور اللہ تعالیٰ کی شریعت سے بغاوت کر گئی تو قہر الٰہی کی ایسی شکار ہوئی کہ مغضوب ومعذوب ٹھہری قرآن کریم نے بنی اسرائیل کی داستان و سرگزشت کہیں اجمال اور کہیں بہت تفصیل و صراحت کے ساتھ بیان کی ہے اور آج بھی اس میں اقوام عالم اور بالخصوص مسلمانوں اور پاکسانیوں کے لئے عبرت کا درس و سامان ہے ۔قرآن کریم کے اصول عروج و زوال میں یہ بات واضح ہے کہ قدرت قوموں کے عروج و زوال اور تباہی و بربادی کے اصولوں میں مذہب رنگ ‘ جغرافیہ پالیسی اورحوالے سے فرق نہیں کرتی جو قوانین و ا صول یہود ونصاریٰ ومشرکین کے لئے ہیں وہی امت مسلمہ کے لئے ہیں۔
مسلمان امت کے عروج کا زمانہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات قدسیہ ہے ۔ جب تک مسلمان امت علیٰ منہاج النبوتۖ رہی وہ علمی ‘ فکری ‘ اخلاقی ‘ سماجی اور تہذیبی وثقافتی لحاظ سے بام عروج پر پہنچی ۔ خلافت راشدہ ‘ خلافت عباسیہ ‘ سلطنت ہسپانیہ ‘ سلطنت سلجوقیہ اور آخر میں خلافت عثمانیہ ‘ مسلمان امت کے محیرالقعول کارناموں کی تاریخ ہے ۔ مسلمانوں کا زوال گیارہویں صدی ھجری سے شروع ہوا ‘ اور برصغیرپاک و ہند میں مغلیہ سلطنت جو مسلمانوں کے عروج کی آخری کڑی تھی اگرچہ پانچ صدیوں تک قائم رہی لیکن بالآخر وہ بھی زوال پذیر ہوئی۔۔ مغلیہ سلطنت کی راکھ کی چنگاریوں سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانان برصغیرپاک و ہند کو پاکستان کی صورت ایک شعلہ جوالہ دیا لیکن بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم بھی بنی اسرائیل کی طرح اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کی قدردانی کماحقہ نہ کر سکے ۔ یہی حال کم و بیش پوری امت مسلمہ ہے ستاون اسلامی ممالک ‘ بیش بہا معدنی وسائل ‘ بہترین وکثیر الانسانی وسائل ‘ بری وبحری افواج ‘ کثیر زرمبادلہ ‘ لیکن اس کے باوجود بدترین ا خلاقی اقدار کی ناپاسداری ‘ بددیانتی ‘ سستی کاہلی ‘ نا فرض شناسی ‘دولت ووسائل کی نامنصفانہ تقسیم’ تضادات و بے جا اختلافات ‘ ظلم اور عدل کا فقدان اور سب سے بڑھ کر ان سب کا ایک ہی سبب قرآنی تعلیمات سے دوری اور غفلت ‘ یہی مسلمانوں اور پاکستان کے زوال کی نشانیاں ہیں۔ آج کل پاکستان میں جو صورتحال ہے ‘ وہ مغلیہ سلطنت کے آخری برسوں سے کتنی مشابہت کی حامل ہے ہمارے حکمران ‘سیاستدان ‘ بیورو کریٹس ‘ مقتدر طبقات قرآن کریم کی تعلیمات سے عبرت حاصل کرکے زوال سے بچنا چاہتے ہیں۔ تو صرف اس ایک آیت کریم کے ترجمہ پر غور کریں ”کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے ہم نے کتنی ہی قومیں ہلاک کردیں ۔ مزید یہ کہ اور ان کے بعد ہم نے دوسری قوموں کو پروان چڑھایا” (سورہ الانعام)

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے