مشرقیات

آنکھیں سوجی ہوئی تھیں دیدوں میں سرخی تھی اور جلن ہو رہی تھی ظاہر ہے کہ آنکھیں آئی تھیں لوگوں نے دوست احباب نے دیکھا تو کہا کہ حضرت آپ کسی علاج کرنے والے کو دکھلائیں فرمایا۔۔ ضرور!۔ یہ اللہ کے بندے جن کی آنکھیں دکھنے آئی تھیں حضرت جنید بغدادی تھے ۔ بڑے اللہ والے ۔ ایسے اللہ والے کہ بہت بڑے عابدوں میں ان کا شمار ہے ۔اس سوجن کی وجہ سے بڑی تکلیف تھی لیکن سخت بے چینی کے عالم میں بھی نماز کا وقت ہوتا تو انہیں چین آجاتا تکئے پر منہ رکھ کر نماز پڑھتے تھے ۔ ایک شخص نے اس حالت میں ان سے کہا کہ ۔۔ حضرت کیا یہ ممکن نہیں کہ اس مسلسل تکلیف میں آپ اس فریضے کو صحت ہونے تک چھوڑ دیں ۔
لوگ نماز کے بارے میں بڑی گمراہی میں مبتلا ہیں نماز وہ فرض ہے جو کسی حالت میں بھی چھوڑا نہیں جا سکتا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بستر مرگ پر بخاراور درد کی شدت سے سخت بے چین تھے لیکن نماز آپۖ نے کبھی نہیں چھوڑی حتیٰ کہ دنیا سے پردہ فرمانے سے کچھ دیر پہلے بھی جب آپۖ سخت بے چین تھے اور زبان مبارک پر رفیق اعلیٰ اعلیٰ کے الفاظ تھے نماز کا وقت آیا تو آپۖ نے نماز ادا فرمائی ہمیں بتایا گیا ہے کہ جاں بوجھ کر نماز چھوڑنے والا مسلمان باقی نہیں رہتا۔حضرت جنید بغدادی نے جب اس شخص کی بات سنی تو اس سے فرمایا کہ بھائی میں اپنی نماز کے ذریعے اللہ تک پہنچا ہوں اسے کس طرح چھوڑ سکتا ہوں۔حضرت جنید بغدادی کی آکھیں جب دکھنے آئیں تو آپ نے ایک طبیب سے مشورہ کیا اس نے کہا پانی تمہاری آنکھوں کے لئے سخت مہلک ہے آنکھوں کو پانی لگنے سے بچایا جائے یہ سن کر حضرت جنید بغدادی نے فرمایا یہ تو ممکن نہیں اس نے پوچھا ۔۔ بھلا کیوں؟ فرمایا۔وضو کرنا جو ہوتا ہے اس نے کہا ۔۔ آنکھیں بچانی ہیں تو میرے مشورے پر عمل کرنا ہوگا یہ طبی ضرورت ہے وہ تو یہ کہہ کر چلاگیا لیکن نماز کا وقت آیا تو حضرت جنید نے حسب معمول وضو کیا اور نماز میں مشغول ہو گئے ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم میں کچھ ایسی خوبی رکھی ہے کہ آپ ہی آپ بہت سی باتوں کا علاج ہوتا رہتا ہے ہاں صحت کے لئے ارادی قوت کی بھی کچھ نہ کچھ ضرورت ہوتی ہے طبی دوائیں اس کے علاوہ رسالت مآبۖ کچھ روحانی نسخے بھی بتایا کرتے تھے ۔ علاج کا یہ طریقہ آپۖ کو وحی کے ذریعہ بتایا جاتا تھا۔اس دن حضرت جنید جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں نے دیکھا کہ ان کی آنکھیں اتنی سرخ نہیں تھیں دوسر ے دن وہ طبیب آیاتو بڑا چکرایا کیونکہ آنکھیں بہتر ہو گئی تھیں پوچھا۔ ۔ آپ نے کیا دوا کی ؟ فرمایا۔۔ میں نے تو آنکھوں کے مقابلے میں آنکھوں کی ٹھنڈک(نماز) کوترجیح دی اور وضو کر لیا شافی مطلق نے کرم فرمایا کہ پانی سے جسے تم میری آنکھوں کے لئے زہر سمجھ رہے تھے تریاق ہوگیا وہ طبیب ایک مجوسی تھا یعنی آگ کا پوجنے والا اس نے بے اختیار کہا کہ بندے کو اللہ تعالیٰ پر اس درجہ پر یقین ہو تو بے شک قوت ارادی کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے ۔ اس واقعہ کا اس پرایسا اثر ہوا کہ تذکرةالاولیاء میں ہے کہ وہ حضرت جنید کے ہاتھ پرایمان لے آیا۔

مزید پڑھیں:  مزید کون سا شعبہ رہ گیا ہے ؟