اغواء کے بڑھتے واقعات

پشاور میں بچوں کے اغواء کی وارداتوں میں اضافہ ہوگیا اور گزشتہ سال کی نسبت امسال کے پہلے 10مہینوں میں بچوں اور دیگر افراد کے اغواء کی وارداتوں میں ریکارڈ اضافہ تشویشناک امر ہے گزشتہ سال 35بچوں کی نسبت رواں سال 45بچوں کو اغواء کیا گیااور بچوں سمیت کل 113افراد اغواء کئے گئے۔ پشاور ایسی افواہوں کی زد میں بھی رہا کہ ایک ایسا گروہ سرگرم ہے جو بچوں کو اغواء کرکے ان کے اعضاء نکال لیتے ہیں تاہم حالیہ عرصہ میں پشاور میں ایسا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ اس ضمن میں ملنے والی اعدادوشمار کے مطابق 2021میں 3بچوں کو اغواء برائے تاوان جبکہ رواں سال کے پہلے 10ماہ میں 8بچوں کو تاوان کیلئے اغواء کیاگیا جس پر 365Aکے تحت مقدمات درج کئے گئے ۔ اسی طرح گزشتہ سال 28بچوں کو حبس بے جا میں رکھنے وغیرہ کے لئے اغواء کیا گیا جن کے خلاف 365کے تحت مقدمات رجسٹرڈ کئے گئے جبکہ رواں سال دفعہ 365کے تحت22کیسز رجسٹرڈ کئے گئے ۔ اسی طرح گزشتہ سال 14سال سے کم عمر 4بچوں کو قتل یادیگر مقاصد کے لئے اٹھایا گیا ۔ رواں سال یہ تعداد بڑھ کر 15 ہوگئی۔امر واقع یہ ہے کہ بچوں کے اغواء کے واقعات ہی میں اضافہ ہی نہیں ہا بلکہ رہزنی موبائل چھیننے اوردیگر سنگین واردتوں کی شرح میں بھی اضافہ نظرآتا ہے جس کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ معاشی بدحالی اور مہنگائی ہے بیرزگاری سے تنگ آئے ہوئے نوجوانوں کا جرائم کی طرف متوجہ ہونا فطری امر ہے بہرحال حالات اوروجوہات جوبھی ہوں ان واقعات کی روک تھام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے افسوسناک امر یہ ہے کہ طرح طرح کی گاڑیوں اور مختلف ناموں سے پولیس سکواڈ کی موجودگی کے باوجود جرائم پیشہ عناصرکی جانب سے ارتکاب جرم میں دلیری آگئی ہے جس کی بڑی وجہ پولیس کا خوف نہ ہونا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ شاذو نادر ہی سننے میں آتاہے کہ پولیس نے بروقت ملزموں کاتعاقب کرکے ان کو جا لیا ہو۔بچوں کے اغواء کے واقعات اور وجوہات کا سوشل میڈیا پرسچ یا جھوٹ کی صورت میں جس طرح چرچا ہے اور ارضی حقیقت بھی اس کے برعکس نہیں ایسے میں والدین کی تشویش اور بچوں کوغیر محفوظ خیال کرتے ہوئے ان کو پابند کرنے کے عمل سے بچے جہاں کھیل کود کے حق سے محروم ہو رہے ہیں وہاں ان کی نفسیات پر بھی اس کا برا اثر پڑ رہا ہے ایسے میں ای گیمنگ کی طرف ان کا مزید رجحان ہونا اور سارا وقت سکرین کے سامنے بیٹھ کر گزارنا مزید قباحتوں کا باعث بن رہا ہے مشکل امر یہ ہے کہ والدین اور بچوں کے پاس کوئی متبادل نہیں جس کی بناء پر وہ غیر صحت مند اور مضر مشاغل اختیار کرنے پرمجبورہو رہے ہیں حکومت ان کو محفوظ ماحول اور تحفظ فراہم کرنے میں اسی طرح ناکامی کا شکار رہی تو نفسیاتی عوارض کاشکار بچوں کی تعداد مزید بڑھے گی پولیس حکام دفاتر کی بجائے سڑکوں پر اور پولیس تھانوں کی بجائے باہر آکر گشت کی ذمہ داری نبھانے پرتیار ہوں تو صورتحال کی بہتری کی توقع ہوسکتی ہے بصورت دیگر خدانخواستہ اس شرح میں بھی اضافہ ہی کا خدشہ ہے۔
ہار جیت کھیل کا حصہ
کھیل کے میدان میں ہار جیت معمول کی بات ہے مگر اہل وطن کسی قیمت پراپنی ٹیم کو ہارتا ہوا نہیں دیکھناچاہتے اور اگر مقابلہ روایتی حریف بھار ت سے ہو توشائقین کرکٹ ہر قیمت پر جیت ہی کے خواہاں ہوتے ہیں مگر یہ امر فراموش کرنے کی نہیں کہ مدمقابل بھی منجھے کھلاڑیوں پرمشتمل ٹیم ہوتی ہے ماضی میں ہاکی کے میدان میں روایتی حریفوں کے درمیان خوب میدان سجتا تھا اب کرکٹ ہی کا میدان رہ گیا ہے جہاں روایتی حریف ٹیموں کے کھلاڑی یا پھر دوسرے لفظوں میں عوام بطورشائقین بھی مدمقابل ہوتے ہیں آئی سی سی ٹی 20ورلڈ کپ کے اہم میچ میں اعصاب شکن مقابلے کے بعد پاکستان کی شکست ایک میچ میں ہارنے کے سوا کچھ نہیں اور اسے اسی طرح ہی سمجھنے کی ضرورت ہے اصل بات میچ کا سننی خیز ہونا اور آخر دم تک مقابلہ تھا جس سے شائقین محظوظ ہوئے اوران کو اچھی کرکٹ دیکھنے کو ملی اگرچہ امپائر کا فیصلہ حتمی ہی ہوتا ہے البتہ اس میچ میں امپائر کے فیصلوں کا معیاراچھا نہ تھا اور ان کا فیصلہ متنازعہ اور موضوع بحث رہے گا اس میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کوجہاں دیگر امور میں محنت کرنے اور غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے وہاں حاضر دماغی بروقت فیصلے اور میچ کے قوانین سے واقفیت بھی از بس ضروری ہے جس پرتوجہ کی ضرورت ہے ۔سابق کرکٹر معین خان نے اس امر کی بجا طور پرنشاندہی کی ہے کہ کوہلی آئی سی سی رولز جانتے تھے اس لئے بولڈ پر رنز بناکر فائدہ اٹھایا۔ آئی سی سی رولز کے مطابق فیلڈ امپائر نو بال پرتھرڈ امپائر کے فیصلے کا انتظار کرتاہے، آئی سی سی رولز کے مطابق بولڈ ہونے پر رنز بناسکتے ہیں۔غلطیوں سے سیکھ کر ہماری کرکٹ ٹیم مضبوط اور جیتنے کی پوزیشن پرآسکتی ہے توقع کی جانی چاہئے کہ اس پر پوری توجہ دی جائے گی۔
صوبائی حکومت کا ایک اور بڑا منصوبہ
خیبرپختونخوا حکومت کے ایک اور فلیگ شپ منصوبے دیر موٹروے کی تعمیر کیلئے زمین کی خریداری کا عمل شروع کرنا اہم پیشرفت ہے اطلاعات کے مطابق درکار زمین کی بروقت خریداری کو یقینی بنانے کیلئے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو خریداری کے عمل کی نگرانی کے ساتھ ساتھ حائل رکاوٹوں کو بھی دور کرے گی ۔ دیر موٹروے کی تعمیر کیلئے سروے کا عمل مکمل کرلیا گیا ہے جبکہ دیگر پہلوئوں پر بھی پیشرفت جاری ہے ابتدائی الائنمنٹ کے مطابق دیر موٹروے کی کل لمبائی 30 کلومیٹر ہے جو چار لائنز پر مشتمل ہو گی جبکہ موٹروے پر دو ٹنلزبھی تعمیر کی جائیں گی ۔اس موقع پروزیراعلیٰ نے کہاکہ صوبائی حکومت صوبے کے تمام اضلاع کو موٹرویز کے ذریعے منسلک کرنے پر کام کر رہی ہے جس کا مقصد عوام کو آرام دہ سفر کی سہولت کی فراہمی کے ساتھ ساتھ صوبے میں تجارتی سرگرمیوں کو بھی فروغ دینا ہے ۔سوات ایکسپریس وے کی تکمیل سے پورا ملاکنڈ ڈویژن جس طرح سفری سہولت کے ساتھ ملک کے دیگر علاقوںسے منسلک ہوا ہے وہ کوئی پوشیدہ امر نہیں دیر موٹروے کا منصوبہ اس سلسلے کی ایک اور کڑی ہے جو دیر چترال ہی کے اضلاع اور ارد گرد کے علاقوں کے لئے ہی فائدہ مند نہ ہوگا بلکہ یہ سی پیک کا متبادل روٹ ثابت ہو گا اس حساب سے یہ بین الاضلاعی یا صوبائی منصوبہ نہیں بلکہ بین الاقوامی منصوبہ جس کی تکمیل سے پورا ملک ایک سہل زمینی راستے سے وسطی ایشیائی ریاستوں اور چین سے منسلک ہوگا جس کے خطے پر اثرات تجارت میں اضافہ اور علاقائی ترقی پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے ۔توقع کی جانی چاہئے کہ اس اہم منصوبے پر بروقت کام شروع کیا جائے گا اور اس کے لئے تمام ممکنہ وسائل بروئے کارلائے جائیں گے۔

مزید پڑھیں:  چھوٹے کام ، بڑا اثر!