افغانستان سے دہشتگردی

افغانستان اور پاکستان کا امن ایک دوسرے سے وابستہ ہے ماضی میں جب بھی حالات خراب ہوئے تو عموماً دونوں ہی ممالک کوسخت حالات سے دوچار دیکھا گیا اس مرتبہ توافغانستان میں فی الوقت کشیدگی نظر نہیںآرہی لیکن جس قسم کے عناصر سرگرم دکھائی دے رہے ہیں بعید نہیں کہ جس طرح سرحد کے اس پار کے حالات سے پاکستان متاثر ہوتا رہا ہے اس طرح کے حالات کا اب افغانستان کو سامنا کرنا پڑے افسوسناک امر یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے پاکستان میں حالات کی بہتری کی جوتوقع کی جارہی تھی وہ درست ثابت نہ ہوئی ایسا نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے خاص طور پر سرحدوں پر حملے کا بڑھ جانا اور بار بار کے واقعات حیران کن اور خلاف توقع ہیں۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر)کے مطابق شمالی وزیرستان میں ایک مرتبہ پھر سرحد پار سے شرپسندی کی کوشش کی گئی جس کی زد میں آکر پاک فوج کا جوان شہید ہوگیا۔دریںاثناء شمالی وزیر ستان میں میر علی سب ڈویژن میں خود کش حملہ کے نتیجہ میں چار سیکورٹی اہلکاروں سمیت 5افراد زخمی ہو گئے ۔ خود کش حملہ تحصیل سپین وام میں ہوا جہاں 17سالہ خود کش حملہ آور نے جو کمبل اوڑھے ہوئے تھا سپین وام چوک سے 4 کلومیٹر دور ایف ڈبلیو او کی ایک گاڑی کے قریب خود کو دھماکہ سے اڑا دیا۔خیال رہے کہ حالیہ دنوں افغانستان سے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان نے متعدد مواقع پر افغانستان کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا ہے۔رواں سال اپریل میں پاکستان کے دفتر خارجہ نے افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ عرصے سے افغانستان کی طرف سے پاکستانی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ترجمان نے کہا تھا کہ پاکستان نے افغانستان کی حکومت سے حالیہ چند ماہ کے دوران متعدد بار درخواست کی ہے کہ وہ اس بارڈر کو محفوظ بنائیں۔ دہشت گرد افغانستان کی سرزمین کا استعمال کرتے ہوئے پاکستانی افواج کو نشانہ بنا رہے ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی میں اضافہ اور پاکستانی علاقے میں خود کش حملہ تشویش کا باعث امر ہے جہاں پاکستان کو سرحدی کشیدگی سے مشکلات کا سامنا ہے وہاں یہ افغانستان کے لئے بھی کوئی خوشگوار صورتحال کا باعث نہیں پاکستان اور افغانستان دونوں کو غلط فہمیوں کاجائزہ لینے سرحدی آمدورفت کو محفوظ بنانے اور خاص طور پر دہشت گردوں کی آمدوفت کی مکمل روک تھام میں ایک دوسرے سے مکمل طور پر تعاون کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ محولہ واقعہ کیسے پیش آیا اس کی وجوہات کیا تھیں اور اس میں کونسے عناصر ملوث تھے ان تمام عوامل پر دونوں ملکوں کو کشیدگی سے گریز کرتے ہوئے سرحدی خلاف ورزیوں کے عوامل اور وجوہات کو دور کرکے سرحدوں کو محفوظ بنانے کا مربوط عمل شروع کر دینا چاہئے ایسا مربوط عمل اور سرحدی حکام کی بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتا ہے جہاں تک افغانستان سے دہشت گردوں کی آمد اور سرحدی حملوں کاتعلق ہے گزشتہ کابل حکومت سے تو توقع ہی نہ تھی لیکن مشکل امر یہ ہے کہ طالبان حکومت کے آنے کے باوجود دہشت گردوں کو لگام دینے میں کابل حکومت ناکام ثابت ہو رہی ہے پاکستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد حملوں میں اضافہ حیرت انگیز بھی ہے اور تشویش کی بات بھی ہے افغانستان دوحہ معاہدے اور بین الاقوامی قوانین دونوں کی روسے اپنی سرزمین کوہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کا پابند ہے مگر اس میں مسلسل ناکامی کا سامنا ہے اس ضمن میں کیا کمزوریاں ہیں اور کیاخرابیاں ہیں ان کا جائزہ لے کر ان کو دور کرکے سرحد کو محفوظ بنانے پرہنوز توجہ کا فقدان ہے افغانستان کے سرحدی حالات کے اثرات سے شہ پاکر پاکستانی سرحد کے اس طرف بھی خفتہ عناصر کارروائیاں کرنا شروع کردیتے ہیں جس کی حالیہ مثال خود کش حملہ ہے طالبان حکومت سے اس ضمن میں حکومت پاکستان کو باقاعدہ احتجاج کرنا چاہئے کہ وہ استحکام امن کی کوششوں میں سستی کامظاہرہ نہ کرے اور اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔

مزید پڑھیں:  ہے مکرر لب ساتھی پہ صلا میرے بعد