جوڈیشل کمیشن کافیصلہ

جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی)نے اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی)کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو سپریم کورٹ میں ترقی دینے کی تجویز متفقہ طور پر منظور کرلی جبکہ ہائی کورٹ کے3ججوں میں سے2کی ترقی منظور اور ایک امیدوار کا نام مسترد کر دیا گیا۔جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کا بیشتر وقت اس گرما گرم بحث میں گزر گیا کہ جب جوڈیشل کمیشن کے 28 جولائی کو ہونے والے اجلاس میں ان ناموں کو پہلے ہی مسترد کیا جا چکا تھا تو وہی نام دوبارہ کیوں تجویز کیے گئے ۔ چند روز قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک خط کے ذریعے چیف جسٹس سے ان3جونیئر ججوں کے نام واپس لینے کی درخواست کی تھی جنہیں جوڈیشل کمیشن کی جانب سے28جولائی کو ہونے والے اجلاس میں پہلے ہی مسترد کیا جا چکا ہے۔علاوہ ازیں وکلا برادری، پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سندھ بار کونسل نے بھی جوڈیشل کمیشن کی جانب سے 3جونیئر ججوں کے نام مستردکیے جانے کے کئی ماہ بعد دوبارہ ان ناموں پر غور کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں ہونے والا فیصلہ اپنی جگہ جس سے قطع نظر حکومت پر اس معاملے میں حکومتی اراکین کی حمایت کو سودے بازی سے تعبیر کیا جا رہا ہے جس کی شاید کوئی موزوں توجیہہ پیش نہ کی جاسکے وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کے کردار پرجو سوالات اٹھائے جارہے ہیں وہ بلاوجہ نہیں ہو سکتے بدقسمتی سے ہمارے معاشرے اور نظام میں کبھی بھی ایماندار ‘ انصاف پسند اور نڈر و بے باک افراد اور شخصیات کی حمایت کا رواج ہی نہیں ہرمرتبہ جب بھی کوئی اہم فیصلہ ہو رہا ہوتا ہے کہیں نہ کہیں مصلحت پسندی دو غلا پن اور مفادات کے لئے سودے بازی کا تاثر غالب آجاتا ہے سپریم کورٹ کے جومعززز جسٹس اسٹیبلشمنٹ کو کھٹکتا ہے وہ سیاستدانوں کوبھی قبول نہیں جہاں جہاں بھی مفادات کے لئے سودے بازی ہوگی وہاں بعد میں اس کے اثرات سے خود فیصلہ سازی میں شریک افراد کا دامن بھی الجھتا نظر آنا فطرت کا تقاضا ہوا کرتا ہے جوڈیشل کمیشن میں خالصتاً میرٹ پر فیصلہ ہی روا ہونا چاہئے تھا میرٹ پرجب جب اور جہاں جہاں بھی فیصلہ ہو اور اس کے وقتی عوامل جو بھی سامنے آنے ہوں مستقبل میں میرٹ پر فیصلہ ہمیشہ مثبت ثابت ہوا ہے اس حوالے سے نظر ثانی ہونی چاہئے اور مفادات سے بالاتر ہوکر میرٹ پر فیصلہ ہو تو ملک و قوم کے لئے سعد ثابت ہوگا۔
اپر چترال میں گندم کا بحران
اپر چترال اور خاص طور پر بالائی علاقوں کے عوام کی جانب سے سرکاری گوداموں میں گندم ناپید ہونے پر احتجاج کا فوری نوٹس لیا جانا چاہئے عوام کوسٹاک پورا نہ ہونے پر تشویش ہے جو بلاوجہ نہیں صورتحال پرجلد توجہ نہ دی گئی تو خوراک کے بحران کا خدشہ درست ثابت ہو سکتا ہے محکمہ خوراک کو بلاتاخیرسرکاری گوداموں میں طلب کے مطابق گندم کی دستیابی کو یقینی بنانا چاہئے ۔اپرچترال کے بالائی علاقے بہت دور افتادہ ہیں اور رسائی بہت مشکل ہے حالیہ سیلاب کے بعدسڑکوں اور خاص طور پر پلوں کی تباہی کے بعد تو یہ علاقے تقریباً رسائی کے بھی قابل نہیں رہے فصلوں کی تباہی کے نتیجے میںگندم کی مقامی پیداواربھی بہت کم ہوئی ایسے میں اگر حکومت کی طرف سے بھی اس طرف توجہ نہ دی گئی تو بالائی علاقوں میں بالخصوص قحط اور عوام کے خدا نخواستہ بھوک سے مرنے کا امکان بڑھ جائے گا۔اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مختلف علاقوں کے عوام کی جانب سے ڈپٹی کمشنر ‘ ڈی ایف سی اور ڈائریکٹر فوڈ خیبر پختونخوا کو تحریری طور پر آگاہ کیا جا چکا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر روزانہ کی بنیاد پر اس حوالے سے واویلا ہو رہا ہے لیکن افسوسناک طور پر ان کو تسلی تک دینے کی زحمت گوار نظر نہیں آتی یہ ایک انسانی مسئلہ ہے جس کے حل کے لئے اقدامات کرنے میں تساہل کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے اور جلد سے جلد سرکاری گوداموں میں گندم کی فراہمی یقینی بنائی جانی چاہئے نیز اس امر کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے کہ سخت ضرورت کے وقت بجائے اس کے کہ خصوصی اقدامات کئے جاتے معمول کے مطابق سرکاری گوداموں میں گندم کی فراہمی ہنوز کیوں ممکن نہیں ہو سکی ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟۔
پولیس گردی
فقیرآباد کے علاقہ دلہ زاک روڈ پر پولیس اہلکاروں نے شہری کو زدوکوب کرکے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بناکر اس کی انگلی توڑنے اور جسم کے مختلف حصوں پر زخم کے واقعے کا سختی سے نوٹس لیا جانا چاہئے ۔مطلوبہ دستاویزات پیش نہ کر سکنے میں ناکامی اتنا بڑا جرم نہیں تھا کہ اسے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا پولیس کا یہ رویہ اسے عوام کی نظروں میں مشکوک اور کم احترام کا باعث بناتا ہے کہ پولیس قانون شکن بااثر افراد سے تعرض کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہے اور عام آدمی پر سختی اور تشدد کرنے سے گریز نہیں کرتی پولیس کو قانون کے مطابق تشددکی اجازت نہیں یہاں تک کہ دوران تفتیش بھی قانونی طور پر پولیس متشدد رویہ اختیار نہیں کر سکتی لیکن جب کوئی پوچھنے والا نہ ہو اور پولیس کے بار بار کے اس طرح کے بدترین واقعات میں ملوث ہونے کے باوجودان کا کوئی بال بیکا نہ ہوتو پھر ان کا اسی طرح بے لگام ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں وزیر اعلیٰ اور چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اگر نوٹس لے کر پولیس گردی کی حوصلہ شکنی کا راست اقدام کریں تو اپنی جگہ باقی کسی محکمانہ کارروائی اور فورم سے انصاف کی کوئی توقع نہیں۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں سے ہوشیار