خدشہ بلاوجہ نہیں

سینئر تجزیہ کاروں کی جانب سے مارشل لاء کا خطرہ بڑھنے کے تجزیئے میں کس قدر وزن ہے اس کا اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے اور ضروری نہیں کہ تجزیہ میں بیان کردہ صورتحال حقیقت بن کر سامنے آئے البتہ اس تجزیہ کے پیچھے عوامل کا جائزہ لیا جائے تو سیاستدانوں کے جس عطار کے ہاتھوں بیمار ہونے کا معمول ہے اور ہ بخوشی اسی کے لڑکے ہی سے دوا لینے میں ایک دوسرے کو کہنی مار کر آگے نکلنے کے عادی ہیں اس وقت کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی دکھائی دیتی ہے جس سے قطع نظر اگر سیاستدانوں کے کردار و عمل کا جائز ہ لیا جائے اور دوسروں کو الزام دینے کی بجائے سیاستدانوں کے طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو کوئی کسر باقی نظر نہیں آتی یہ درست ہے کہ ایک جانب سے کچھ غیر لچکدار رویہ ا پنانے کا رواج ہے لیکن بالاخراب جب وہ فریق بھی مذاکرات و مفاہمت پر بخوشی یا پھر بادل نخواستہ آمادہ ہے اور منتظر ہے کہ پس پردہ مذاکرات کا کوئی قبول حل سامنے آئے اور وہ سیاسی طور طریق کا قائل ہو گیا ہے تو دوسری جانب سے اس قدر غیر لچکدار رویہ اختیار کرنے کی ضرورت کیا ہے اور وہ بھی اس کے باوجود کہ تمام تر دعوئوں کے باوجود ملکی معاشی صورتحال اور سیاسی و عوامی حالات میں بہتری نہیں آئی اور نہ ہی اس جاری ماحول میں اس کا کوئی امکان نظر آتا ہے ماضی میں طالع آزمائوں کو موقع دینے کی ذمہ داری کسی اور پرعائد کرنے سے قبل اگر سیاستدانوں کے طرز عمل اور عمل و کردار کا جائزہ لیا جائے تو اس کا ظاہری موقع انہی کی جانب سے ہی نظر آئے گا سیاستدان جب تک دوسروں کے ہاتھوں کھیلنے کی بجائے اپنے مسائل و معاملات کا حل خود ہی نکالنے کی صلاحیت پیدا نہیں کرتے سیاست و جمہوریت اور پارلیمان کبھی بھی بالادست اور طاقتور نہیں ہو سکتے جن خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے ان کی حقیقت و امکان سے قطع نظر ایک مرتبہ پھر اگرسیاسی حالات اور سیاستدانوں کے رویوں اور اس کے عوامل پر نگاہ دوڑائی جائے تو بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ سیاست کو مات ہو چکی ہے اور ایک طرف کنواںدوسری طرف کھائی کی صورتحال ہے جس سے بچنے کا واحد حل مذاکرات و مفاہمت اور مصالحت ہے اصولوں کی سیاست کہنے کی حد تک دلکش ہے لیکن جس بھی سیاسی جماعت اور رہنمائوں کے کردار و عمل کا جائزہ لیا جائے تو کہیں نہ کہیں مفاد پرستی اور اصولوں کی قربانی نظر آئے گی ملکی سیاست کا معمول ہی یہ رہا ہے کہ کل جو ناخوب تھا آج وہ خوب ہے اور کل جو خوب تھا آج وہ ناخوب ہے ۔مسلم لیگ نون ‘ پیپلز پارٹی ‘ جمعیت علمائے اسلام ‘ اے این پی اور اتحاد ی جماعتوں کا کل جو موقف تھا حکومت میں آنے کے بعد ان کے موقف اور رویے میں تبدیلی کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں اسی طرح پاکستان تحریک انصاف جس جھولی سے گری ہے وہ بھی کوئی پوشیدہ امر نہیں جب تک سیاسی عمائدین حصول اقتدار کے جمہوری اصولوں کو نہیں اپنائیں گے اور بیساکھیوں کا سہارا لے کر انتخابات کی شفایت کوآلودہ کرنے کی غلطی کا ارتکاب کرتے رہیں گے ان کو بے ا ختیار ہونے اور حکومت کی رخصتی کے خدشات سے چھٹکارا کبھی بھی نہیں مل سکے گا مشکل امر یہ ہے کہ اس کمبل کو اب چھوڑنے کا فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کمبل اگرعلیحدگی پر آمادہ ہو اور کمبل اوڑھنے والے ہی اگر کمبل کو چھوڑنے پرآمادہ نہ ہو تو پھر صورتحال میں تبدیلی کی کوئی صورت کیسے نکل پائے گی اس وقت دیکھا جائے تو گویا ملک میں سیاست نہیں بلکہ دو ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہیں تحریک انصاف پوری تیاری کے ساتھ اسلام آباد کا گھیرائو کرنے جارہی ہے جمعرات ‘ جمعہ تک حتمی تاریخ کا اعلان ہونا ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے ممکنہ لانگ مارچ کے پیش نظر پولیس کی بھاری نفری اسلام آباد پہنچ گئی ہے نفری میں سندھ پولیس کے 6ہزار، ایف سی کی 90پلاٹون اور 2667 اہلکار اپنی گاڑیوں پر اسلام آباد پہنچ گئے ہیںایسا لگتا ہے کہ گویا اسلام آباد میں گھمسان کا رن ڑ رہا ہو اس تناظر میں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ پس پردہ مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تو جو صورتحال بنے گی اسے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی ناکامی ہی پر محمول کیا جائے گا اس کی کسی قیمت پر نوبت نہین آنے دینا چاہئے سیاست حالات اور وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہو لچک اورمصلحت اختیار نہ کی جائے اور اپنی داڑھی آپ دوسروں کے ہاتھ میں دینے کی پیشکش کا سماں بنایا جائے تو اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو گی جن خطرات کا اظہار کیا جارہا ہے ان خطرات سے بچنا سیاسی جماعتوں کے اپنے ہاتھ میں ہے ملک کوکسی مشکل کا شکار بنانے کی بجائے تمام فریقوں کو حکمت اور بصیرت سے کام لینے کی ضرورت ہے تاکہ ان حالات و امکانات کاموثر تدارک ہوسکے جو باربار سیاسی بساط کے لپیٹے جانے کا باعث بنتے رہے ہیں اور ملک میں سیاسی استحکام آئے۔

مزید پڑھیں:  ہے مکرر لب ساتھی پہ صلا میرے بعد