حریت کانفرنس پر بھارت کا عتاب

سری نگر میں بھارتی فوج اور لیفٹیننٹ گورنرمنوج سنہا کی سرپرستی میں انتہا پسند ہندو پنڈتوں کے ایک گروہ نے کل جماعتی حریت کانفرنس کے دفتر پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ کی ۔انتہاپسندوں کے اس گروہ نے حریت کانفرنس کے دفتر کے باہر بورڈ کو توڑ کر اس کی جگہ اپنا بورڈ نصب کیا ۔انتہا پسندوں نے یہ کارروائی شمالی کشمیر میں ایک مقامی پنڈت کی ٹارگٹ کلنگ کے ردعمل میں کی ۔کچھ عرصہ سے مقبوضہ کشمیر میں پنڈتوں سمیت مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے اس میں مسلمان پولیس اہلکار بھی شامل ہیں مگر یہ واقعا ت اس کے مقابلے میں کچھ نہیں جو بھارتی فوجی مسلمانوں کو قتل کرکے رونما کرتے ہیں ۔کسی بھی مسلمان نوجوان کو کسی زیر زمین تنظیم کا ہمدردقرار دے کر قتل کرنا معمول بن کر رہ گیا ہے ۔بھارت کشمیر کی تحریک مزاحمت کے سیاسی محاذ کل جماعتی حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں پر پابندی عائد کرچکا ہے۔ اس کے ایک دھڑے کے قائد سید علی گیلانی نظر بندی کے عالم میں جہان فانی سے کوچ کر چکے ہیں ان کے دوسرے ساتھی بھارت کی دوردراز کی جیلوں میں بندہیں ۔دوسرے دھڑے کے قائد میرواعظ عمر فاروق ڈھائی سال سے اپنے گھر میں نظربندہیں ان کے دوسرے ساتھی بھی جیلوں میں ہیں ۔میرواعظ عمر فاروق کو جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دینے کی اجازت نہیں ۔کوئی کارکن اور عام شہری حریت کانفرنس کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کرنے سے قاصر ہے ۔ حریت کانفرنس کا دفتر بھی بند پڑا ہے۔ ۔حریت کانفرنس قانونی اور غیر قانونی کی اس اصطلاح میں اپنا موقف رکھتی ہے ۔ بھارت اپنے کنٹرول کو آئینی او ر قانونی سمجھتا ہے مگر کشمیری اسے حالات کے جبر کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔حریت کانفرنس کا قیام1993میں عمل آیا تھا جس میں کشمیریوں کے حریت پسندانہ جذبات کی عکاسی کرنے والی چھبیس تنظیمیں شامل تھیں ۔ پاکستان کی حکومتوں اوردہلی میں امریکی اور یورپی ملکوں کے سفیروں اور نمائندگان نے بھی حریت کانفرنس کی قیادت سے ہر اہم موڑ پر ملاقاتیں اور مشاورت کی ۔جو حریت کانفرنس کو ایک ایک سیاسی اور امن پسند تنظیم ماننے کے مترادف تھا۔خود بھارت کی سول سوسائٹی کے لوگ بھی حریت نمائندوں کے ساتھ بات چیت کرکے اس حیثیت کو تسلیم کرتے رہے ۔بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کے معاملے پر حریت کانفرنس دودھڑوں میں تقسیم ہو گئی تھی ۔ایک دھڑے کی قیادت میرواعظ عمر فاروق اور دوسرے کی قیادت سید علی گیلانی کرتے رہے ۔ میرواعظ کی قیادت میں دھڑے کو اعتدال پسند اور سید علی گیلانی کے دھڑے کو سخت گیر سمجھا جاتا رہا ۔بعد میں حریت کانفرنس کچھ اس انداز سے غیر متعلق ہوگئی کہ وادی کے تین مقبول اور موثر سوچوں کی نمائندگی کرنے والے راہنمائوں سید علی گیلانی ، میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک نے ایک مشترکہ مزاحمتی فورم تشکیل دے کر عوامی مزاحمت اور احتجاجی تحریکوں کی قیادت کی ۔تینوں راہنمائوں کی نظر بندی کے بعد مشترکہ مزاحمتی فورم بھی غیر موثر ہوگیا ۔ اب5 اگست 2019 کے بعد تو حریت کانفرنس کا وجود کتابوں میں ہی ملتا ہے مگر انتہا پسندوں نے ایک واقعے کا بہانہ بنا کر بند دفتر کو بھی توڑ پھوڑ کانشانہ بنایا جو ایک سخت گیر مائنڈ سیٹ کی عکاسی ہے ۔ان حالات میں بھی حریت کانفرنس کے نظر بند چیرمین میرواعظ عمر فاروق نے کشمیری پنڈت کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور اسے کشمیر ی اور اسلامی اقدار کی سراسر خلاف ورزی قراردیا ۔یہی نہیں متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے بھی اس واقعے کی کھلی مذمت کی ۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اسلام اور مجاہدین کا ضابطہ اخلاق ایسی کاروائی کی اجازت نہیں دیتا انہوںنے کہا سنتالیس میں جب ہندوتا کے حامیوں نے مسلمانوں کا خون بہایا تو کشمیری مسلمانوں نے پنڈت بھائیوں کی حفاظت کی اور اسی لئے گاندھی جی کو اعتراف کرنا پڑا تھا کہ اسے کشمیر سے روشنی کی کرن نظر آتی ہے ۔ سید صلاح الدین کے اس بیان سے اندازہ ہورہا ہے کہ کوئی تیسرا ہاتھ کسی مخصوص مقصد کے لئے کشمیر میں فرقہ وارانہ تقسیم کو گہرا کرنا چاہتا ہے ۔ایسے میں ایک ہلاکت کا غصہ حریت کانفرنس کے بورڈ اور بند دفتر اُتارنا کسی اور ہی ایجنڈے اور منصوببہ بندی کا عکاس ہے۔ حریت کانفرنس کشمیریوں کی آخری تحریک اور امید نہیں ۔یہ کشمیرکی طویل تحریک کا ایک پڑائو تھا ۔کشمیریوں نے تاریخ کے ہر دور میں اپنی جدوجہد کو کسی نہ کسی بینر تلے لڑا ۔یہ کہانی مہاراجہ کے دور سے مسلم کانفرنس سے شروع ہوکر کبھی محاذ رائے شماری تو کبھی عوامی مجلس عمل ،کبھی الفتح ،مسلم متحدہ محاذ اور تحریک حریت کشمیر سے ہوتی ہوئی حریت کانفرنس تک پہنچی ہے ۔حریت کانفرنس کو شجر ممنوعہ بنانے کامطلب حریت پسندی کا خاتمہ نہیں۔حریت پسندانہ جذبات کا تعلق تنظیمی شناخت اور ناموں سے نہیں ہوتا نہ یہ جذبات کسی لیبل کے محتاج ہوتے ہیں۔حریت کانفرنس پر پابندی کو کئی برس گزرگئے مگر صدائے حریت تو مختلف واقعات کی صورت میں اب بھی بلند ہورہی ۔طاقت کی بھلائی ایسے کمزور سہاروں اور ہتھیاروں کی بجائے حقائق کاسامنا کرنے میں ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں:  شہر کے بڑے ہسپتالوں میں ڈسپلن کا فقدان