لانگ مارچ کو خونیں بنانے کی کوشش

جلسے، احتجاج، اور لانگ مارچ ہر شہری و جماعت کا جمہوری حق ہے، کسی بھی جماعت یا شخص سے یہ حق سلب نہیں کیا جا سکتا ہے، تاہم اگر احتجاج میں انتشار اور انارکی در آئے تو ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے احتجاج کا راستہ روک کر شہریوں کی جان و مال کو محفوظ بنانے کیلئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھے۔ تحریک انصاف حکومت کے خلاف لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز کر چکی ہے، یہ لانگ مارچ جی ٹی روڈ سے ہوتا ہوا چار نومبرکو اسلام آباد پہنچنے کی اطلاعات ہیں، تحریک انصاف کی پوری کوشش ہے کہ لانگ مارچ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت یقینی بنا سکے تاکہ اس کی بنا پر حکومت سے فوری طور پر نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جا سکے۔ لانگ مارچ کی طرح تحریک انصاف کی طرف سے نئے انتخابات کا مطالبہ بھی درست ہے مگر مطالبے کی حد تک۔ اگر عمران خان ڈنڈے کے زور پر نئے انتخابات کا سوچ رہے ہیں تو ایسا ہونا عملی طور پر آسان نہیں ہے۔ سکیورٹی اداروں کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لانگ مارچ کو خونیں بنانے کی کہیں نہ کہیں منصوبہ بندی ہو رہی ہے، ڈی جی آئی ایس آئی اور ترجمان پاک فوج کی مشترکہ پریس کانفرنس میں دراصل اسی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ فیصل واوڈا جو تحریک انصاف کا رہنما تھا اس نے بھی لانگ مارچ میں جنازے اٹھنے کا ذکر کیا ہے، اب علی امین گنڈا پور کی آڈیو نے اس پر مہر ثبت کر دی ہے۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے پریس کانفرنس کے دوران علی امین گنڈاپور کی مبینہ آڈیو چلائی، جس میں علی امین گنڈاپور کو نامعلوم شخص سے بات کرتے سنا جا سکتا ہے۔آڈیو میں نامعلوم شخص کہتا ہے، جی علی خان، جس کے جواب میں علی امین گنڈا پور کہتے ہیں صدر صاحب کیا پوزیشن ہے؟
نامعلوم شخص کہتا ہے سر پوزیشن تو اے ون ہے، آپ سنائیں؟ جواب میں علی امین گنڈا پور کہتے ہیں بندوقیں کتنی ہیں؟ تو نامعلوم شخص کہتا سنائی دیا کہ بہت ہیں، پی ٹی آئی رہنما پوچھتے ہیں کہ لائسنس؟ تو نامعلوم شخص کہتا ہے کہ لائسنس بھی بہت ہیں؟
مبینہ آڈیو میں علی امین گنڈاپور کہتے ہیں بندے؟ تو نامعلوم شخص کہتا ہے کہ بندے بھی جتنے چاہئے ہوں گے سر۔
علی امین گنڈا پور کہتے ہیں کہ اچھا! ہم یہاں کیمپ لگا رہے ہیں ساتھ ہی قریب ہی کالونی میں، تو نامعلوم شخص کہتا ہے کہ جی، آڈیو میں علی امین گنڈا پور کہتے ہیں کہ یہاں قریب ترین جگہ کون سی ہے آخر میں؟ کون سی کالونی ساتھ لگ رہی ہے، نامعلوم شخص پوچھتا ہے ہمارے ہاں؟
آڈیو میں علی امین گنڈاپور کہتے ہیں کہ بارڈر پر، بارڈر پر، اسلام آباد پنڈی کے بارڈر پر، علی امین گنڈاپور کہتے ہیں ٹول پلازہ کے بعد لیفٹ سائیڈ پر، کون سی جگہ ہے؟ ٹاپ سٹی ہے یا کیپیٹل؟ جواب میں نامعلوم شخص کہتا ہے کہ ٹاپ بھی، کیپٹل بھی ہے، بہت ساری ہیں بتائیں، پھر علی امین گنڈاپور کہتے ہیں کہ ٹاپ تو ایئرپورٹ پر ہے ناں؟ جواب میں نامعلوم شخص کہتا ہے کہ ٹاپ تو ایئرپورٹ والی سائیڈ پر ہے ناں، میں نے پورا نقشہ بھیجا تھا آپ کو۔
مبینہ آڈیو میں علی امین گنڈاپور کہتے ہیں کہ وہ ملا ہوا ہے مجھے، وہ ہے میرے پاس، بس بندے اور سامان آپ تیار رکھیں وہاں پر۔
تحریک انصاف کے رہنما کی گفتگو سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لانگ مارچ کو خونیں بنانے کا پورا بندوبست موجود ہے، سیاسی اہداف کے حصول کیلئے چند لوگوں کو قربان کر دینا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ہے۔ ڈھٹائی ملاحظہ کیجئے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما و سابق وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور نے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی جاری کردہ مبینہ آڈیو لیک پر ردعمل کا اظہار یوںکیا ہے۔ علی امین کا کہنا تھا کہ ہمیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ یہ آئیں تو سہی ہم ماریں گے، وزیر داخلہ کہتے ہیں ہم نے ڈرونز لیے ہوئے ہیں، ہم نے بھی پھر چوڑیاں نہیں پہنی ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پرامن احتجاج پر ماریں گے کیا ان کے پاس جان سے مارنے کا لائسنس ہے؟ اگر ہمیں مارو گے تو کیا ہم ہار لے کر کھڑے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ تم اگر حملہ کرو گے تو ہمارے جواب کیلئے بھی تیار رہو، ہم آزادی کے لیے نکلے ہیں اور آزادی لے کر رہیں گے۔ جب وفاق اور صوبے آمنے سامنے ہوں گے تو نتائج کیا نکلیں گے یہ سوچ کر ہی انسان دنگ رہ جاتا ہے کیونکہ ہم ایسے ہی حالات کی وجہ سے مشرقی پاکستان کو کھو چکے ہیں اب اگرچہ حالات ویسے نہیں ہیں لیکن تفریق اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اہل سیاست مل بیٹھ کر بات کرنے پر آمادہ نہیں ہیں، ماضی میں جب بھی سیاسی کشیدگی بڑھتی تھی تو اسٹیبلشمنٹ درمیانی راہ نکالنے میں کردار ادا کرتی مگر اب اسٹیبلشمنٹ خود فریق بن چکی ہے۔ عمران خان فوری انتخابات چاہتے ہیں اگر ان کی بات مان لی جاتی ہے تب الیکشن کی تیاری کیلئے چھ ماہ کا عرصہ درکار ہو گا، یعنی اپریل سے پہلے الیکشن کمیشن کیلئے انتخابات کرانا عملی طور پر مشکل ہو جائے گا، جبکہ موجودہ اسمبلی کی آئینی مدت اگست تک ہے یعنی صرف تین ماہ کی بات ہے جس پر حکمران اتحاد اور تحریک انصاف باہم دست و گریبان ہیں، اگر درمیانی راہ نکال لی جائے اور تین ماہ کے دورانئے کو کم کر لیا جائے تو معاملہ ختم ہو سکتا ہے مگر اہل سیاست سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ صرف الیکشن کے انعقاد کا نہیں ہے درپردہ کچھ مقاصد ہیں جنہیں الیکشن کی آڑ میں حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کیلئے سیاسی قیادت لانگ مارچ کو خونیں بنانے سے بھی گریز نہیں کرے گی۔

مزید پڑھیں:  گیس چوری اور محکمے کی بے خبری