کہانیوں سے بنا بیانیہ اور لانگ مارچ

سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کا حقیقی آزادی لانگ مارچ جہاد جوں جوں لاہور سے اسلام آباد کی طرف بڑھ رہا ہے سابق وزیراعظم عمران خان کے لہجے میں تلخی کا عنصر بھی بڑھتا جارہا ہے۔ گزشتہ روز لانگ مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کو مذاکرات کے لئے پیغام بھجوانے کی تردید کرتے ہوئے کہا تمہیں پیغام کیوں بھجوائوں تمہارے پاس ہے کیا؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے اسٹیبلشمنٹ نے بتایا تھاکہ آصف علی زرداری اور نوازشریف چور ہیں اب ادارے اگر ان کے ساتھ کھڑے ہیں تو ہم کیوں کھڑے ہوں نیز یہ کہ میری وزارت عظمی کے دور میں نیب میرے اختیار میں نہیں تھا اس لئے ہم کرپٹ ٹولے کو انجام تک نہ پہنچاسکے۔ ادھر وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ عمران خان نے مجھے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے مذاکرات کے لئے پیغام بھجوایا تو میں نے کہا الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے۔ میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت کے لئے بات چیت ہوسکتی ہے۔ گزشتہ روز ہی وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور دیگر حکومتی شخصیات نے پی ٹی آئی کی قیادت بالخصوص عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ان پر جوابی الزامات کی بوچھاڑ کردی۔ ۔ وزیراعظم اور عمران خان کی ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان اور الزامات کا اعادہ اپنی جگہ البتہ یہ سوال اہم ہے کہ اگر عمران خان نے اپنے مطالبات اور خصوصا الیکشن کے لئے تاریخ لینے کے حوالے سے حکومت سے مذاکرات نہیں کرتے کہ بقول ان کے وہ بے اختیار اور اشاروں پر چلنے والی ہے اور یہ کہ چوروں کے ٹولے سے بات چیت میری سیاسی جدوجہد کی توہین ہے تو پھر ان کے مارچ کا مقصد کیا ہے؟ کیا وہ اپنے حامیوں کے ہمراہ اسلام آباد کو مفلوج کرکے اسٹیبلشمنٹ کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ انہیں عام انتخابات کی تاریخ دے؟ جیسا کہ چند دن قبل ان کی جماعت کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے کہا کہ ملک میں واحد بااثر قوت اسٹیبلشمنٹ ہے ہم اس سے انتخابات مانگ رہے ہیں۔ایسا ہے تو پھر اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ مبینہ امریکی سازش، ہینڈلرز، غدار، امریکی مہرے اور ان سے ملتی جلتی دوسری باتیں جو عمران خان اور پی ٹی آئی کے رہنما پچھلے سات ماہ سے کرتے آرہے ہیں صرف اپنے حامیوں کے جذبات بھڑکانے کے لئے تھیں اصل غم و غصہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے تحریک عدم اعتماد کے مرحلہ میں ان کی حکومت کی مدد کیوں نہ کی۔
وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد پچھلے سات ماہ کے دوران عمران خان نے اپنے بیانات، الزامات اور سازش کے بیانیہ سے جو عمومی فضا بنائی اس میں ان کے حامی انہیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ لیڈر کے طور پر دیکھتے اور پیش کرتے ہیں اسی عرصہ میں انہوں نے دو بار آرمی چیف اور ایک بار ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کی جبکہ ان کے نمائندوں نے بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے اس کے علاوہ تین ملاقاتیں کیں۔ ان تمام ملاقاتوں سے عمران خان اگر کچھ حاصل نہیں کرپائے تو اب کیسے یہ ممکن ہوگا کہ وہ حکومت وقت سے بات ہی نہ کریں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ انہیں آئندہ الیکشن کی تاریخ دے دے۔ کیا اسٹیبلشمنٹ کے پاس دستوری طور پر ایسا کوئی کردار موجود ہے؟ اس کا جواب بہت سادہ ہے کہ وہ یہ کہ انتخابات کا اعلان حکومت نے کرنا ہے اس اعلان سے قبل وفاق اور صوبوں میں نگران حکومتوں کے لئے حکومت اور اپوزیشن میں تبادلہ خیال ضروری ہے۔کرپشن کے جس بیانہ پر انہوں نے جدوجہد کی وہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بتائی سنائی گئی(ن)لیگ اور پی پی پی کے لوگوں کی کرپشن کہانیوں پر ہے، اس طور تو ان کی ماضی کی ساری جدوجہد دراصل اسٹیبلشمنٹ کی رام لیلا پر اٹھائی گئی ایسا ہی ہے تو پھر اصولی طور پر انہیں اسٹیبلشمٹن کی جانب سے مختلف ہتھکنڈے آزماکر دونوں جماعتوں سے الیکٹیبل تحریک انصاف میں بھجوانے کی خدمت کو شکریہ کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے 2018 کے انتخابات اپنی سیاسی طاقت سے لڑنا چاہئیں تھے۔ گزشتہ سات ماہ سے وہ اپنی بے اختیاری کی کہانیاں سناتے چلے آرہے ہیں تکرار کے ساتھ یہ بات کہتے رہے ہیں کہ وزیراعظم میں تھا مگر اختیار کسی اور کے پاس تھا۔ اگلے روز انہوں نے دعوی کیا کہ وہ اقتدار میں عوام کی طاقت سے آئے تھے اسٹیبلشمنٹ کے سہارے پر نہیں۔اس کے برعکس بطور وزیراعظم دو چار بار نہیں متعدد بار انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ یہ تاثر غلط ہے میں بے اختیار وزیراعظم ہوں، داخلہ، خارجہ اور معاشی پالیسیاں میری ہوتی ہیں ہم باہمی مشاورت کے بعد ان کی منظوری دیتے ہیں، اسٹیبلشمنٹ نے انہیں دو بڑی جماعتوں کی کرپشن سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کیوں اسٹیبلشمنٹ کے دعوئوں پر آنکھیں بند کرکے یقین کرلیا؟ اس سے ملتا جلتا دعوی ان کے حامی بعض اینکر اور یوٹیوبرز بھی پچھلے چند ماہ سے کررہے ہیں کہ (ن)لیگ اور پیپلزپارٹی والوں کی کرپشن کی فائلیں ہمیں ایجنسیوں کے ذمہ داران نے دیکھائیں۔ نہ تو صحافیوں نے پیشہ ورانہ مہارت اور دیانتداری کا مظاہرہ کیا نہ ہی عمران خان نے سیاسی عمل کے تقاضوں کو مدنظر رکھا ۔ ان کی حالیہ تقاریر کے بعد مکرر یہ پوچھا جانا ضروری ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو وہ امریکی سازش کا مہرہ قرار دیتے ہیں حکومت کو چوروں کا ٹولہ پھر لانگ مارچ لے کر کس سے اپنے مطالبات پر مذاکرات کرنے کے لئے اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہیں؟ لانگ مارچ کے آغاز کے بعد سے سیاسی حریفوں کے درمیان جس زبان دانی کا مقابلہ ہورہا ہے اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ گو اس الزام کی جو حکومت میں شامل بعض شخصیات لگارہی ہیں تائید نہیں کی جاسکتی کہ عمران خان اسلام آباد پر قبضے کے لئے غیرریاستی مسلح جتھوں سے معاملہ کرچکے ہیں یا یہ کہ وہ ایک ایسی سازش کا کردار ہیں جو اداروں میں توڑپھوڑ اور تصادم کے لئے رچائی گئی ہے پھر بھی یہ عرض کرنا لازم ہے کہ سیاسی عمل کو دائو پر لگانے یا منفی طرز عمل اپناکر انہونیوں کا راستہ ہموار کیا گیا تو منفی نتائج سبھی کو بھگتنا ہوں گے۔ اسی سبب ہم باردیگر دست بدستہ یہ درخواست کریں گے کہ طرفین اناکے خول سے باہر نکل کر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں حالات کو اس سمت نہ لے کر جائیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو اور صورتحال”لڑتے لڑتے ہوگئی گم ایک کی چونچ اور ایک کی دم”کے مصداق ہو۔ ہمیں امید ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کی قیادت ملک اور عوام کے وسیع تر مفاد میں ان معروضات پر غور کریں گے۔

مزید پڑھیں:  سنہری موقع سے ذمہ داری کے ساتھ استفادے کی ضرورت