قومی زرعی پیکج

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے پاکستان کی معاشی ترقی کیلئے زرعی ترقی اور کسانوں کی بہبود کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کسانوں کیلئے1800ارب روپے سے زائد مالیت کے تاریخی قومی زرعی پیکج کا اعلان کر دیا ہے جس کے تحت پانچ سال تک استعمال شدہ ٹریکٹر درآمد کئے جا سکیں گے، تین لاکھ ٹیوب ویلز کو سولر پر منتقل کرنے کیلئے بلاسود قرضے فراہم کریں گے، کسانوں کیلئے13روپے فی یونٹ فکسڈ قیمت پر بجلی فراہم کی جائے گی ۔ وزیر اعظم نے کسانوں کی خوشحالی اور بہتری کے لئے جن مراعات کااعلان کیا ان کی ایک طویل فہرست ہے اس سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ حکومت کو بجا طور پر اس امر کا دراک ہے کہ اگر ملکی معیشت کوکوئی شعبہ سہارا دے سکتا ہے تو وہ زراعت کا شعبہ ہی ہے وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ملکی معیشت میں زراعت کا حصہ24فیصد ہے پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود بدقسمتی سے حکومتیں اس کو وہ ترجیح اور مراعات دینے میں ناکام رہیں۔جس کی ضرورت تھی اس سال سیلاب سے ملک بھر کی زراعت براہ راست یا بالواسطہ طور پر متاثر ہوئی جس کے باعث کسانوں کی معاشی حالت پر برااثر اور ان کی مشکلات میں اس طرح اضافہ ہوا کہ چالیس لاکھ ایکڑ رقبے پرکھڑی فصلوں کی تباہی سے وہ بالکل ہی مفلوج ہو کر رہ گئے سیلاب کا پانی اترنے اورزمین خشک ہونے کے بعد گندم کی کاشت کے قابل تو ہو چکا ہے لیکن تباہ حال کسانوں کے پاس کھاد اور بیج کی خریداری کی استطاعت نہیں اور گندم کی بوائی کا وقت سر پر آن پہنچ چکا ہے اس حساب سے دیکھا جائے تو حکومت نے کسان پیکج کے اعلان میں کافی تاخیر کی ہے اب اس میں مزید تاخیر کی گنجائش نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اعلان کردہ منصوبے پر درجہ بدرجہ اور ترجیحات کا تعین کرکے تسلسل کے ساتھ عملدرآمد شروع کیا جائے اس ضمن میں جلد سے جلد قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہونا چاہئے ساتھ ہی ساتھ وزیر اعظم نے زرعی آلات سمیت دیگر زرعی ضروریات کی فراہمی اور اس ضمن میں مدد کا اعلان کیا ہے اس پر عملدرآمد پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ہونا چاہئے تاکہ اس کے ثمرات ممکنہ وقت میں کسانوںکو مل سکیں اور کسان اس کا فائدہ اٹھا کر بہتر فصلیں حاصل کرسکیں تاکہ ملک میں غذائی اجناس کی قلت اور درآمد کرنے پرخرچ ہونے والی قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہواور کسان بھی خوشحال ہوں اور زراعت ترقی کرے۔
47لاکھ ان پڑھ بچے
قبائلی اضلاع میں سکولز نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں خطرناک شرح کوئی پوشیدہ امر نہیںبینظیرانکم سپورٹ پروگرام2021کے سروے کے مطابق صوبہ میں پانچ سال سے 16 سال کی عمر کے47لاکھ بچے سکولز نہیں جاتے ان میں29لاکھ لڑکیاں ہیںسروے کے مطابق سکول نہ جانے والے مذکورہ بچوں میں10لاکھ بچوں کا تعلق قبائلی اضلاع سے ہے جس میں74.4فیصدلڑکیاں اور38.5فیصدلڑکے کسی نہ کسی وجہ سے سکولز میں نہیںجارہے ہیںسب سے زیادہ66فیصد بچے شمالی وزیرستان میں سکولزسے باہرہیں باجوڑ میں63 فیصد، جنوبی وزیرستان میں61فیصد،مہمند اور ضلع خیبرمیں51فیصد،اور کزئی اور ضلع کرم میں47 فیصد بچے سکولز نہیں جاتے ہیں۔خیبر پختونخوا میں دعوے کی حد تک ہی تعلیم حکومت کی ترجیح اول ہے وگر نہ نصاب کی کتابوں میں سنگین غلطیوں سے لے کر سکولوں کی حالت زاراساتذہ کی عدم موجودگی وغیر حاضری اورسرکاری سکولوں میں دی جانے والی تعلیم کے معیار کے باعث لاحاصل کا تاثر اورتجربہ ومشاہدے سے اس کی تصدیق بیروزگاری و جہالت سبھی عوامل مل کر اس صورتحال کے ذمہ دارہیں پسماندہ علاقوں میں کم ہی والدین سخت مشقت برداشت کرکے بچوں کوپڑھانے کا فریضہ نبھاتے ہیں کچھ کم علمی اور شعور نہ ہونے کی بناء پر بچوں کو سکول نہیں بھیجتے اگر بڑی وجہ تلاش کیا جائے تووالدین کی غربت اورسرکاری سکولوں کی حالت زار دونوں سامنے آئیں گے جس کے مقابلے میں والدین بچوں سے چھوٹے موٹے کام کروانے اور ہنر سکھانے کو ترجیح دیتے ہیں وجوہات اوراسباب جوبھی ہوں یہ ایک المیہ ہے اور اس سے ہماری آنے والی نسلوں پرمنفی اثرات مرتب ہونا یقینی ہے تمام وجوہات کاجائزہ لے کر ان وجوہات کودور کرنے اورمسائل کاحل تلاش کرکے ان کودور کئے بغیر باقی مساعی لاحاصل ہوں گی جس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ۔
حیات آباد میں بڑھتی وارداتیں
حیات آبادکے ایک پارک میں نوجوانوں میں جھگڑے کے بعد مبینہ طور پر شاکس سے افراد کا آکر ایک نوجوان کو چھرا گھونپ کرہلاک کرنے کے واقعے کے پس پردہ عوامل جو بھی ہوں اس سے قطع نظر حیات آباد میں روزبروز جرائم اوروارداتوں میں تیزی آگئی ہے اس کے باوجود ناکہ بندی اور چیک پوسٹ قائم کرنے سے احتراز سمجھ سے بالاتر امر ہے پولیس حکام کو سیف حیات آباد کا فعال نظام برداشت نہ ہوسکا جس کے خاتمے کے بعد حیات آباد شہر ناپرسان بن چکا ہے حفاظتی دیوار توڑ کر یا کانٹا تار کتر کر دیوار پھلانگ کر جرائم پیشہ اور منشیات فروشوں کی یلغار بدامنی کی سب سے بڑی وجہ ہے جس کی روک تھام کا تقاضا ہے کہ فرنٹیئر کانسٹبلری کی نفری کو دیوار کے ساتھ گشت کی ذمہ داری نبھانے کا پابند بنایا جائے اور علاقے میں پولیس گشت میں اضافہ کیا جائے ختم شدہ چیک پوسٹوں کو جلد سے جلد بحال کرکے ناکہ بندیاں لگائی جائیں۔

مزید پڑھیں:  خلاف روایت عمل