اہل سیاست آمنے سامنے

پی ٹی آئی رہنما پرویز خٹک نے حکومت کے ساتھ بیک ڈور مذاکرات کی تردیدکرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم مارچ کے لیے تیار ہیں۔ تحریک انصاف کبھی اسلحہ نہیں اٹھائے گی، ہم پرامن طریقے سے اسلام آباد آئیں گے۔حکومت کے ساتھ بات چیت سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے کسی بھی لیفٹیننٹ جنرل کی بطور آرمی چیف تعیناتی پراعتراض نہیں کیا سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور رہنما پی ٹی آئی اسد قیصر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت والی جگہ ہی پر احتجاج کریں گے ۔دریںاثناء اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے حقیقی آزادی لانگ مارچ میں اپنے دفاع کے لئے پشاور کی مارکیٹ سے سینکڑوں کی تعداد میں غلیل کی خریداری مکمل کرلی ہے۔خیبرپختونخوا کے وزیر برائے اعلیٰ تعلیم کامران بنگش نے کہا ہے کہاگر حکومت نے غنڈہ گردی کی تو اپنے دفاع کا حق رکھتے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ راستے سے رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے الگ سے ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جو فرنٹ لائن پر ہوں گی۔بعدازاں ایک بیان میں کامران بنگش نے کہا کہ پی ٹی آئی بلٹ نہیں بیلٹ سے مخالفین کے پرخچے اڑا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کارکنوں کو لانگ مارچ میں مسلح آنے کا نہیں کہا۔ قانون شہریوں کو ذاتی تحفظ کے لئے لائسنس یافتہ اسلحہ رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ان تمام بیانات اور تیاریوں سے پی ٹی آئی کی حکمت عملی کو سمجھنا اورتیاریوں کا مقصد تلاش کرنا مشکل نہیں بہرحال اسلام آباد پہنچ کر پی ٹی آئی کی حکمت عملی کے خدوخال واضح ہونے ہیں جس کے مطابق تحریک انصاف کم ازکم پندرہ دن تک اسلام آباد میں دھرنا کی یاد تازہ کرنے کی منصوبہ بندی رکھتی ہے عین ممکن ہے کہ یہ سلسلہ قبل ازیں کے دھرنا کی طرح طویل ہو جائے ۔ تحریک انصاف کی اپنی حکمت عملی اور منصوبہ بندی ہو گی تاہم اسے اس امرکو بہرحال مدنظررکھنے کی ضرورت ہو گی کہ ایک سو چھبیس دن کے دھرنا سے لے کر اب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور حالات اس طرح کے واقع اور مددگار نہیں رہے اس کے باوجود تحریک انصاف اگر اپنے بل بوتے پر ایسا کر پائے تو یقینا یہ منظم سیاسی جماعت اورتحریکی کارکنان حقیقی معنوں میں خود کو سیاسی کارکن کے طر پر منوائیں گے اس احتجاج سے قبل از وقت انتخابات کی تاریخ کی راہ ہموار ہوتی ہے یا نہیں پی ٹی آئی کے کارکنوں کو بھر پور سیاسی تربیت اور برداشت کا سبق ضرور حاصل ہو گا جو کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکنوں کے لئے ضروری خیال کیاجاتا ہے خوش آئند امر یہ ہے کہ بالاخر تحریک انصاف کی قیادت نے واشگاف طور پر پرامن رہنے مقررہ مقام پر احتجاج کومحدود رکھنے کی یقین دہانی کرائی ہے البتہ ان کی تیاریاں دیکھ کرتصادم کی تیاری بھی نظر آتی ہے ممکن ہے یہ خیال درست ثابت نہ ہو بہرحال گزشتہ احتجاج میں عدالت کی ہدایات کی خلاف ورزی پر اس کے موقف کا تضاد شکوک و شبہات اور عدم اعتماد کا باعث ضرور ہے جس سے قطع نظر ایک اور مثبت بات یہ سامنے آئی ہے کہ تحریک انصاف حقیقی آزادی مارچ اور اسلام آباد میں ممکنہ دھرنا یا طویل اجتماع و نشست کا بری فوج کے سربراہ کی تقرری سے کوئی تعلق نہ ہوگا بلکہ پہلی مرتبہ وزیر اعظم کے اختیار اور فیصلے کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے جواحسن امر ہے نیز سابق خطابات سے قطع نظر تحریک انصاف کے قائد کا عسکری قیادت کے حوالے سے لب ولہجہ بھی احسن دائرے میں آگیا ہے ان تمام اسباب و علل کو اگر حقیقی تسلیم کیا جائے تو اس کے بعد حقیقی آزادی مارچ کے حوالے سے خدشات کا اظہار مناسب نہ ہو گا قائدین کی جانب سے پرامن ہونے اورمختص جگہ پر جلسہ یا دھرنا دینے کا عندیہ قابل اطمینان امر ہے بشرطیکہ گزشتہ مارچ اور اسلام آباد یلغار کی مثال دہرانے سے عملی طور پر اجتناب کیا جائے پرامن احتجاج کی آئین اور قانون اجازت دیتا ہے اور خود یہ ملک و قوم اور تحریک انصاف کے اپنے لئے بھی یہ موزوں راستہ ہوگا اب یہ قیادت پر منحصر ہے کہ وہ اپنے کارکنوں اور اجتماع کو کس طرح قانون کے دائرے کے اندر رکھتے ہیں اس کے باوجود غلیل اور خاص طور پر لائسنس دار اسلحہ لے کر جانے کا معاملہ باعث فکر امر ہے جس سے اجتناب بہتر ہوگا تاکہ حادثاتی طور پر بھی کسی واقعے کاامکان باقی نہ رہے بہرحال امن و امان کی صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لئے ضروری اقدامات وزارت داخلہ کی ذمہ داری ہے اس مارچ کو پرامن رکھ کر اگر نتائج حاصل کئے جا سکیں تو سونے پہ سہاگہ ہوگا اور اگر خدانخواستہ تصادم کا راستہ اختیار کیا گیا تو یہ ملک و قوم کے لئے باعث نقصان ہوگا جہاں تک مذاکرات اور معاملات کاسوال ہے اس کا باب اب بند دکھائی دیتا ہے مذاکرات تو درکنارفیس سیونگ بھی نہ دینے کے واضح اظہار کے بعدتحریک انصاف کی قیادت ایسی کیاحکمت عملی اختیار کرتی ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے سیاسی دنیا میں بات چیت کے دروازے مکمل طور پر بند کرنے کا اعلان سیاسی رویہ نہیں اسی طرح کا طرز عمل سامنے آنے کے بعد تحریک انصاف دبائو بڑھانے کے لئے مختلف حربے اختیار کرنے پر مجبور ہو گی جس سے حکومت مشکلات کاشکار ہو سکتی ہے بہرحال ایک سوچھبیس دن کا دھرنا اور حکومت چلانے کاماضی کا تجربہ دہرانے کی تیاری ہو رہی ہے اس کا انجام کیا ہو گادعا ہی کی جا سکتی ہے کہ تمت بالخیر ہو۔

مزید پڑھیں:  چھوٹے کام ، بڑا اثر!