صحافت کل اور آج

تیز رفتار میڈیا کی آمد تو ابھی حال کی بات ہے جدید میڈیا سے قبل صحافت جسے صحیفہ نگاری بھی قراردیا جاتا رہا ہے کی صورت میں موجود تھی صحیفہ نگاری کے لفظ سے ہی اندازہ لگائیے کہ اسے کس چیز سے تشبیہ دی جاتی تھی اور اس کے قدروں کا کس حد تک خیال رکھا جاتا ہو گا برصغیر پاک و ہند کی صحافت قیام پاکستان میں اس کا کردار کوئی زیادہ پرانی بات نہیں قیام پاکستان کے بعد کی صحافت بھی صحیفہ نگاری ہی رہی صحافت میں انقلاب یا پھر تخریب کتابت کی جگہ کمپوزنگ اور خاص طور پر 1996ء میں یونیکوڈ کے اجراء کے بعد ہوا مشینی تیز رفتاری سے صحافت کا آغاز ہوتے ہی معیار پرسمجھوتہ ہونا شروع ہوا اور رفتہ رفتہ جس طرح آلات صحافت جدید سے جدید تر ہوتے گئے اور خاص طور پر جب سے اسے ماس کمیونیکیشن اور میڈیا کا درجہ ملا تو اصولوں اور معیار پر وہ سمجھوتے شروع ہوئے کہ صحافت کا معیار اور حلیہ ہی بگڑ گیا۔ آج مولانا ابوالکلام آزاد ‘ محمد علی جوہر ‘ حسرت موہانی ‘ ظفر علی خان ‘ شورش کاشمیری ‘ عبدالمجید سالک ‘ چراغ حسین حسرت جیسے لوگ چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے وہ ایک دور کے لوگ تھے خیر اب صحافت بھی نظریاتی اوراصولوں کی نہ رہی قلم کی آبرو کا اب کسے خیال اب صحافت بھی صحافت نہیں رہی صنعت بن گئی ہے ہر اخبار کی اپنی پالیسی اور صحافی کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے اب مائیک اور قلم بھی بازار میں برائے فروخت دستیاب شے ہیں۔ آن لائن صحافت نے تو مطبوعہ صحافت کو اس قدر دھچکا پہنچایا ہے کہ جو تھوڑے بہت سفید بالوں والے بقیت السلف رہ گئے ہیں ان کے بعد مطبوعہ صحافت تقریباً معدوم ہی ہو گی اچھے لکھاری اور کالم نگاروں کا ابھی سے قحط ہے مطالعہ کی بجائے کاپی پیسٹ الفاظ کا ہیر پھیر اور ردوبدل کرکے ایک ہی مواد مختلف پیکنگ میں دستیاب ہونے لگا ہے اچھا بھی ہو رہا ہے لیکن نئے اندازسے اور اس کے تقاضے بہرحال مطبوعہ صحافت سے ہٹ کر ہیں۔آج کے نوجوان صحافی بٹر پیپر پر لکھائی سرخیوں کوڈراک روم لے جا کر ریورس بنوا کر فلم سکھانے کے عمل سے ہی ناواقف ہیں پروف ریڈنگ کا تو شعبہ ہی ختم کرکے غلطیوں اور اصلاح کے مواقع باقی ختم صحیح اردو لکھنے اور بولنے کا تو اب زمانہ ہی نہیں رہا اب ملک میں کی جگہ ملک کے اندر یعنی جہاں میں استعمال ہونا چاہئے وہاں تو اتر کے ساتھ اندر کا لفظ غلط العام ہے زباں بگڑ رہی ہے دہن بگڑ رہے ہیںابلاغ کی دنیا میں زبان دانی کی جگہ زباں بربادی نے لے لی ہے اصلاح کرنے والے بھی نہ رہے تو سیکھنے کا بھی کسی کو شوق نہیں رہا۔ صحافیوں کی حالت بھی بہت حد تک بدل گئی ہے پہلے صحافت درویشانہ پیشہ ہوا کرتا تھا اب صحافیوں کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھیں تو یہ بھی طبقہ اشرافیہ میں شامل دکھائی دیتے ہیں جن کو ان کا حصہ دیئے بغیر اب باقیوں کا بھی کام نہیں چلنے کا جوصحافی کل روکھی سوکھی کھا کر صحافت کی آبرو کا علمبردار سمجھا جاتا تھا آج اسے طرح طرح کی ترغیبات میسر ہیں۔ صحافیوں کو قدم قدم پر دانہ ڈالا جانے لگا ہے شاذو نادر ہی کوئی ہوگا جودامن بچا لے یا پھر وہ قابل ذکر نہیں ہو گا جواس سب سے محروم ہو آج کا محروم سے محروم اور کام سے کام رکھنے والا صحافی پلاٹوں کا مالک ہے دو تین نہ بھی ہوں توبھی محروم سے محروم کے پاس بھی ایک پلاٹ تو لازمی ہوگا اور اگر نہیں بھی تو ملنے کی پوری امید ہوگی ۔ مجھے صحافت میں بھی محرومیوں اور بھوکے پیٹ صحافت کرنے والے ضرور ہیں ہے لیکن مجموعی طور پر صحافیوں کو ملک بھر میں خاص طور پر پریس کلبوں کے ممبران تو معمول میں نوازے جاتے ہیں مجھے ان کی حالت زار دیکھ کرافسوس بھی ہوتا ہے اور اگر لے دے کے ایک دو پلاٹس بھی ان کو نہ ملیں تو بیچارے کام کیسے چلائیں ۔دوسری جانب اخباری صنعت صرف صحافیوں پر نہیں کھڑی بلکہ میڈیا ورکر ز اس کے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ان بیچاروں کو تو”لفافے”ملتے ہیں اور نہ ہی پلاٹ اور پریس کلبز کے ذریعے حکومت کی طرف سے کوئی مالی امداد اور مراعات وغیرہ ان کا پلیٹ فارم نہ ہونا اور ایپنک کاغیرفعال ہونا ان کا جرم ٹھہرا۔ صحافیوں کے مقابلے میں انتظامیہ کے علاوہ ان کارکنوں کی تنخواہیں بھی واجبی ہی ہوتی ہیں بعض کو تو کم سے کم اجرت بھی نہیں ملتی۔
دوسری جانب بہرحال بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں کی بھی کمی نہیں درجنوں مثالیں موجود ہیں کہ ایک ہی طرح کی صلاحیت اور مدت میں ایک کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے دوسرا بیچارا توجوتیاں چٹخاتا جاتا ہے یہ جوتیاں چٹخانے والے ہی صحافت کی گاڑی کھینچ رہے ہیں یہ بھی نہ رہیں تو پھررہی سہی صحافت کابھی خدا حافظ صحافت پہلے بھی پرخطر تھی اب مزید پرخطر ہوگئی ہے فرق نہیں اتنا ہی ہے کہ پہلے ضمیر کا سودا نہیں کیا جاتا تھا قیدو بند کی تکلیفیں صعوبتیں ‘ کوڑے تک کھائے گئے مگر صحافت پر آنچ آنے نہ دی گئی اب پر خطر قسم کی صحافت کا ایجنڈا چلا کر خوب مال کمانے اور ایجنٹ بن کر ڈور ہلانے والوں کی بولی بولنا اور اس میں آگے بڑھتے بڑھتے اپنی جان کو بھی خطرے میں ڈالنے کی نوبت کا آنا ہے اب صحافیوں میرا مطلب ایجنڈا والے صحافیوں کے دو گروپ ہیں ایک گروپ کی گڈی چڑھے تو دوسرے گروپ والے مطعون دوسروں کی باری آئے تو پہلے والوں کی شامت ملک چھوڑنے اور جان سے جانے کی نوبت آجاتی ہے صحافی اگرواقعی میں صحافت کریں اور اداروں کے ہاتھوں نہ کھیلیں ان کا مائوتھ پیس اور ترجمان بننے سے گریز کریں صحافتی حدود دو قیود کا خیال کریں توآج بھی صحافت اور صحافیوں کی وقعت ہے تیز گام قسم کے جولوگ اور وہ بھی بغیر تربیت اور پس منظر کے یہ جو اچانک قلم اور خاص طور پر مائیک پکڑ کر سامنے آنے لگے ہیں ان کے ہاتھوں صحافت جس طرح رسوا ہوئی ہے اس میں مزید رسوائی کی گنجائش بھی باقی نہیں رہی رہ گئے بیچارے قارئین سامعین اورناظرین وہ بھی معروضی حقائق نہیں اپنی مرضی کا سچ اپنی جماعت اور گروہ کاموقف سننے پڑھنے اور دیکھنے کا شعل اختیار کئے ہوئے ہیں پھر کیوں نہ عاشق کے جنازے کی طرح صحافت کاجنازہ دھوم سے نہ نکلے۔

مزید پڑھیں:  سنہری موقع سے ذمہ داری کے ساتھ استفادے کی ضرورت