غیر قانونی سپیڈ بریکرز

کمشنر پشاور کی جانب سے غیر قانونی سپیڈ بریکرز ہٹانے کے حوالے سے ہدایات پر عملدرآمد نظرنہیں آتی سپیڈ بریکرز جرائم پیشہ افراد کے لئے سہولت کا باعث ثابت ہو رہی ہیں جہاں گاڑی اور موٹرسائیکل کی رفتار آہستہ ہونے پر ان مقامات سے موبائل چھیننے او ررہزنی کی وارداتیں معمول بنتی جارہی ہیںبی آر ٹی کے فیڈر روٹ پر سپیڈ بریکرز سے گاڑیوں کے حصے لگنے سے گاڑیوں کی خرابی کے خدشات بھی بلاوجہ نہیں علاوہ ازیں گھروں کے سامنے غیر قانونی اور خاص طور پر اونچی اور سڑک کی حدودتک ریمپ بھی شہریوں کے لئے بلائے جاں بن چکی ہیں۔شہر کے بیشتر علاقوں بشمول حیات آباد اور دیگر پوش علاقوں میں غیر قانونی ریمپ اور خود ساختہ سپیڈ بریکرز کی تعمیر کوئی پوشیدہ امر نہیں لیکن صورتحال سے مکمل آگاہی کے باوجود ٹائونز اور پی ڈی اے کے حکام ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتے ازروئے قانون شہری اپنی حدود سے باہر ایک سوتر زمین بھی اپنی ترجیح اور منشاء کے مطابق استعمال میں نہیں لاسکتے مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ آدھی سڑک بطور ریمپ استعمال ہو رہی ہوتی ہے جس سے گزرنے والی گاڑیوں کا راستہ محدود اور پر خطر بن جاتا ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ حکومت کے ارباب حل وعقد کو ان مسائل پربھرپورایکشن لینے کی ضرورت ہے صوبائی دارالحکومت میں ریمپ اور غیر قانونی سپیڈ بریکر ہٹانے کی خصوصی مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ شہر کو اس تکلیف دہ قسم کے تجاوزات سے پاک کیا جا سکے۔
گیس بحران کا خدشہ
ملک بھر میںموسم سرما میں گیس بحران کے خدشے اور ایل این جی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر حکومت نے گیس کے استعمال کو کم کرنے کے لئے مجوزہ اقدامات پرعملدرآمد پر توجہ کی ضرورت ہے صورتحال یہ ہے کہ ملک میں عموماً گرمی میں بجلی کی مانگ بڑھنے سے جبکہ سردی میں گیس کی مانگ میں اضافے سے ان دونوں موسموں میں عوام مشکلات سے دوچار رہتے ہیں تاہم اب کی بار بجلی کے ساتھ ساتھ گیس کی بھی شدید کمی دیکھنے میں آئی جس سے گیس بحران کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور موجودہ صورتحال میں یہ خدشات یقین میں بدلتے دکھائی دیتے ہیں کہ اگر گیس کی اس قدر کمی رہی تو سردیوں میں صورتحال کے ممکنہ بحران میں تبدیل ہونے پر کوئی دو آراء نہیں ہوسکتیں گھریلو صارفین ہی مشکلات کا شکار ہوں تو سردیوں میں صنعتی شعبے اور سی این جی سیکٹر کے ساتھ کیا سلوک روارکھا جائے گا اس حوالے سے فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا ‘ تاہم گزشتہ سال کی طرح گھریلو صارفین ایک بارپھر سخت مشکل میں پھنس سکتے ہیں ‘ اس ضمن میں عوام خود عوام کی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں کہ بعض لوگ چھوٹے سائز کے کمپریسر لگا کر ہمسایوں کو گیس سے محروم رکھتے ہیںاس ساری صورتحال کی تیاری اور اقدامات میں تاخیر کی گنجائش نہیں ہے۔
سرکاری نرخنامے کی کھلی خلاف ورزی
مہنگائی اور سرکاری نرخ نظر انداز ہونا انتظامی ناکامی ہے یا پھر حکومتی ناکامی عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں عوام مہنگائی میں کمی کے طالب ہیں خواہ حکومتی اقدامات سے آئے یا بیورو کریسی کی مساعی سے حکومت کی اس سادگی کو کیا نام دیا جائے کہ حکومت ایک جانب مہنگائی کی روک تھام میں ناکامی کو انتظامی ناکامی قرار دیتی ہے اور دوسری طرف مہنگائی کنٹرول کرنے کا ٹاسک بھی بیورو کریسی کے سپرد کر دیا ہے جن کی کوتاہی اور تساہل کوئی پوشیدہ امر نہیںیہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہر بار اسی طرح ہورہا ہے ۔اصولی طور پر کارکردگی کا جائزہ کامیابی و ناکامی کی وجوہات کوسامنے رکھ کر ہونا چاہئے تاکہ مشکلات اور رکاوٹوں کو دور کرنے کے بعد کامیاب اقدامات کئے جا سکیں۔انتظامی طور پر کوتاہی ہی سرکاری نرخنامے کی سرعام خلاف ورزی کا باعث ہے اس ضمن میں تسلسل کے ساتھ کام نہیں ہوتا اور کبھی کبھار کے چھاپے اور جرمانوں سے مہنگائی مافیا کو لگام دینے کے لئے کافی نہیں۔

مزید پڑھیں:  سیاست اپنی جگہ صوبے کا مفاد مقدم