پاکستان جاسوسی ناول سے سمارٹ فون تک

پاکستان کے لاتعداد مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے پالیسی سازوں اور نسلِ نو کے درمیان ایک جنریشن گیپ آگیا ہے ۔سوچ وفکر حکمت عملی اور چال ڈھال تک یہ تفریق نمایاں ہے۔پاکستان کے پالیسی ساز جاسوسی ناولوں کی دنیا کے باسی ہیں ۔جب گلی محلوں کی لائبریریوں اولڈ بک سٹورز یا دفاتر اور دکانوں میں لوگ ان ناولوں یا ڈائجسٹوں کا اجتماعی یا باری باری مطالعہ کرتے تھے ۔یہ نسل پڑھ کر سب کچھ ہضم کرنے پر مجبو رتھی کیونکہ اس کے پاس اپنی رائے ظاہر کرنے اور سوال اُٹھانے کا کوئی موقع کوئی ذریعہ نہیں ہوتا تھا ۔کہانی کا جھول یا کرداروں کی محیر العقول کارکردگی یا مبالغہ آمیز ی سمیت قاری کے ذہن میں کوئی بھی سوال اُبھرتا وہ اسے دل ودماغ میں دفن کرتا یا اپنے شریک قارئین کی محفل میں زیر بحث لاکر اگلے شمارے کا بے تابی سے انتظار کرنے لگتا ۔اس کیا کیجئے کہ ”ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں”۔گویا جو چیز اس کائنات کی زندہ اور ابدی حقیقت ہے وہ ہے زمانے کی لہروں کا بہتے اور آگے بڑھتے چلے جانا۔دوسری طرف پاکستان میں ایک اور انتہا وہ نسلِ نو جس کا تصویر کشی دوناکام سیاسی تجربات کرکے اس دشت کی سیاحی سے دست کش ہونے والے احمد جواد نے اپنے ایک ٹویٹ میں کی ہے ۔احمد جواد یوں رقم طراز ہیں”روزانہ سترہ ہزار بچے اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچتے ہیںان میں نوے فیصد عمران خان کے نظریے پر کھڑے ہیں۔آپ ان کو روک سکتے ہیں نہ کوئی ادارہ ۔نئے انتخابات کا اعلان کریں ورنہ بوٹوں کی چاپ سنائی دے رہی ہے ۔اس ملک کے عوام کو فیصلہ کرنے دیں”۔احمد جواد موجودہ حکومت میں نوجوانوں کے ہی امور کے نگران تھے ۔انہوںنے کسی تحقیق اور مشاہدے کی بنیاد پر یہ بات کہی ہو گی اور یہ بات ان دیسی دانشوروں کی اس فلاسفی کی نفی ہے کہ عمران خان کا میڈیا روبوٹس چلا رہے ہیں یا دس سے پندر ہ ہزار روپے پر قومی رضاکاروں کی کوئی خفیہ فوج اس کام کو آگے بڑھا رہی ہے ۔یہ دانشور خود تو اس سوچ کے قائل ہوں یا نہ ہوں مگر حکمران وقت کو نوشتۂ دیوار پڑھنے سے روکنے کے لئے ایسی بات ضرور کرتے ہیں کہ جس سے حکمران کا دل خوش ہوتا ہے اور وہ اپنے آئینہ خانے کو ہی سب سے بڑی حقیقت سمجھ بیٹھتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جاسوسی ناولوں کا زمانہ لد گیا ہے اور اب سمارٹ فون تھامے نسلیں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہیں ۔ایسا نہیں کہ اس نسل کو جوانی کی دہلیز پر سمارٹ فون میسر آیا ہو بلکہ مائیں روتے ہوئے بچوں کو چُپ کرانے کے لئے اب لوری اور جھنجنے کی بجائے سمارٹ فون تھمادیتی ہیں اور یوں ان کا موبائل کے ساتھ سفر لاشعور کی دنیا سے شروع ہوجاتا ہے۔سن ِ شعور کو پہنچنے سے پہلے ہی اس نسل نے آگہی کے ایک دور کو تحت الشعور میںبسا لیا ہوتا ہے ۔آج عمران خان کے جلسوں میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دیوانہ وار شامل ہوتے ہیں تو اس لہر کا تجزیہ دس سے پندر ہ ہزار کی کرایہ کش فورس کی فلاسفی میں نہیں بلکہ آج کے پاکستان اور دنیا کے حالات کے بُعد اور فرق میں تلاش کیا جانا چاہئے ۔اس کے بغیر نسل نو کے” باغی” ہوجانے کی وجوہات اور اسباب کی تہہ تک پہنچنا ممکن نہیں۔سائنس کی ترقی نے نسل نوکے ہاتھ میں سمارٹ فون دے کر ایک پوری دنیا تھمادی ہے۔یہ عہد ِ جدید کا ”ساغر ِجم”ہے۔یوں سمارٹ فون کی صورت میں ایک نسل کے پاس جدید بہترین اور تیز رفتار ذریعہ اظہار آگیا ہے ۔جہاں وہ جاسوسی ناول پڑھ کر سر دھننے اور سوالا ت کو ذہن کے کسی گوشے میں دفن کرنے کی بجائے سوال پوچھنے کی قدرت رکھتے ہیں ۔تبصرہ کرنے کی طاقت اور صلاحیت رکھتے ہیں ۔کردار نگاری کے جھول پر مبالغے کی زیادہ آمیزش اور افراد اور گروہوں کی دورنگی پر اپنی رائے برملا دے سکتے ہیں۔یوں نسل نو اپنے اندر زیادہ توانائی اور اعتماد محسوس کرتی ہے ۔اس نسل کو اسلوب اور کردار نگاری کی افیون سے بہلایا نہیں جا سکتا بلکہ یہ نسل شعور میں بہت آگے نکل گئی ہے ۔ پاکستان کے موجودہ حالات کی تصویر کے فریم میں آج کی نوجوان نسل پر پنجابی کا یہ شعر صادق آتا ہے ۔
اُٹھ جاگ نی سسیے سُتیے تینوں چھل گئی نیندر چور
نی سسیے بے خبرے تیرا لٹیا ای شہر بھنبور
پاکستان کی نئی نسل جب عالم بے خبری میں اپنے شہر بھمبور کو لُٹا پُٹا دیکھتی ہے تو فرسٹریشن کا شکار ہونا فطری ہوتا ہے ۔دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی پاکستان حالات کے دردوکرب کا اشتہاربن کر رہ گیا ہے ۔حد تو یہ کہ کوئی ان حالات کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کرتا ۔یوں لگتا ہے مریخ سے کوئی مخلوق آکر پاکستان کو اُجاڑ جاتی ہے ۔دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ،بائیس کروڑ آبادی ،بے تحاشا وسائل ،نوجوان آبادی کا حامل سب بڑا ملک ،دنیا کی بہترین اور کیل کانٹے سے لیس فوج مگر کشکول اُٹھائے معاشی دیوالیہ پن کے کنارے پر کھڑا۔معاشی حالات کو مقدر کالکھا سمجھ کر قبول کیا جا سکتا تھا مگر میرٹ نہ انصاف ،احتساب نہ قانون وآئین کی بالادستی۔بھارت کا آگے نکل کر معاشی طاقت بننا بھی گوارا تھا مگر پاکستان سے الگ ہو کر بنگلہ دیش کے چند دہائیوں میں ہر میدان میں پاکستان سے آگے نکل جانے کا تیر پاکستان کی نئی نسل کے دل میں ترازو ہو کر رہ گیا ہے ۔آخر پاکستان کا نوجوان اپنے ارمانوں اور مستقبل کا لہو کس کے ہاتھ پر تلاش کرے ؟۔اس ملک کی سب بڑی حقیقت نظریہ ضرورت ہے جس کے تحت ہر دور اور ہر دور کی ضرورت بدلنے کے بعد محبوب اور معتوب کے کردار بدل جاتے ہیں۔پاکستان کی نئی نسل محبت کے احراموں اور عقیدت کے میناروں سے منہ موڑ کر اپنی تیرہ بختی اور حرماں نصیبی کا حساب مانگتی ہے اور عمران خان ان کے دلوں کے تار چھیڑکر اس نسل کو اپنی جانب متوجہ کرچکے ہیں ۔اس نسل کے جذبات کو کچلنا اور دبانا مسئلے کا حل نہیں بلکہ کئی نئے مسائل کی بنیادبن سکتا ہے۔اس جنریشن گیپ کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟صاف ظاہر ہے سمارٹ فون والوں کو جاسوسی اور تاریخی ناولوں کے دور میں واپس دھکیلا نہیں جاسکتا اس کے لئے پرانے لوگوں کونئے زمانے کی طرف آگے بڑھنا ہوگا۔اب لوگوں کے جذبات کو سمجھے اور قبول کئے بنا کوئی چارہ نہیں۔

مزید پڑھیں:  چھوٹے کام ، بڑا اثر!