آج کی رات بچیں گے تو سحر دیکھیں گے

پشتو کی ایک ضرب المثل ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو ہاتھی رکھتے ہیں ‘ دروازے اونچے اور کھلے رکھتے ہیں ‘ ظاہر ہے ہاتھی جسامت کے لحاظ سے بلند بھی ہوتا ہے اور قوی الجثہ بھی ‘ تنگ اور کم اونچائی کے دروازوں سے اس کا گزرنا ممکن ہی نہیں ہوتا ‘ ایک اور یہ بھی مشہور ہے کہ ہاتھی کے ساتھ گنے چوسنا اتنا آسان نہیں ہوتا ‘ ہاتھی کی جسامت کے حوالے سے اہل ہند میں ایک اور بات بھی بہت مشہور ہے کہ وہاں شیخیاں بگھارنے والے اپنی بڑائی کا اظہار یوں کرتے تھے کہ ہمارا تعلق نوابوں کے خاندان سے ہے ‘ پیچھے سے (خاندان خصوصاً ننھیال کی طرف سے) ہمارے مقابلے کا کوئی نہیں ‘ ماموں کے پودینے کے باگات (باغات) تھے ‘ بیچ ما ہاتھی جھولا کرے تھے ‘ اب خدا جانے یہ باغات کے پودینے ہی کے کیوں ہوتے تھے ‘ اس میں کوئی خاص بات ہو سکتی ہے ‘ بہرحال یہ باتیں اس لئے یاد آگئیں کہ کراچی اور لاہور کے قدیم چڑیا گھروں کی دیکھا دیکھی خدا جانے پرویز خٹک حکومت کے دور ہی سے صوبائی حکومت کوکیا سوجھی کہ پشاور میں بھی چڑیا گھر جسے اردو میں توچڑیا گھر کا دینے کا فلسفہ بھی سمجھ سے باہر ہے ‘ کیونکہ انگریزی میں اس کے لئے ہر قسم جانوروں کو لا کر رکھا جاتا ہے جہاں لوگ اپنے بچوں کے ساتھ جا کر تفریح کرتے ہیں ‘ حالانکہ دیکھا جائے تو چڑیاگھر کا لفظ صرف پرندوں کے لئے مخصوص ہونا چاہئے ‘مگر خیر نام میں کیا رکھا ہے اور اگر پرندوں کے ساتھ دیگر جانور بھی یہاں لا کر رکھے جاتے ہیں تو اس کی خاصیت میں کمی تو نہیں ہوتی ‘ بہرحال بات ہو رہی تھی پشاور کے چڑیا گھر کی جہاں کے جانوروں کی زندگی مشکل میں پھنسنے کی خبریں سامنے آئی ہیں ‘اور شیروں کے لئے روزانہ کی خوراک مبینہ طور پر آدھی کردی گئی ہے ‘ یعنی روزانہ کے حساب سے شیر جتنا گوشت کھانے کے عادی ہیں ‘ اب ان کے اخراجات کی تاب نہ لاتے ہوئے گوشت کا مقدار آدھا کر دیاگیا ہے ‘ گویا شیروں کوکہا جارہا ہے کہ ”شیربن شیر” اور صرف آدھی پر گزارہ کر ‘ بہ الفاظ دیگر انہیں”روزہ رکھنے” کی تلقین کی جارہی ہے اس حساب سے دوسری جنگلی مخلوق کا کیا حال ہو رہا ہو گا ‘ اس حوالے سے بھی سوال اٹھ سکتا ہے ‘ بے چاری بے زباں مخلوق کے ساتھ اگر یہ حشر جاری رہے گا تو اس کے بالآخر کیا نتائج نکل سکتے ہیں؟ ممکن ہے مسلسل بھوک سے تنگ آکر یہ درندے کوئی ایسی ویسی حرکت ہی نہ کردیں جس کا کوئی مداوا ہی نہ ہوسکے ‘ ویسے یہ ظلم ہے اور ہمارے مذہب میں جانوروں کے ساتھ اس قسم کے سلوک کی ممانعت کی گئی ہے کہ بے زبان جانور”بول کر” فریاد بھی نہیں کرسکتے ‘ اب اگر انسداد بے رحمی حیوانات والے اس صورتحال کا نوٹس لیں توپھر متعلقہ حکام کے پاس جانوروں کے ساتھ روا رکھے جانے والے اس ظالمانہ سلوک کا کیا جواز ہو گا۔ ممکن ہے وہ اس کھٹارہ قسم کے لطیفے کے الفاظ دوہرا کر اپنی جان چھڑا لیں کہ ہم تو ہر جانور کو نقد رقم دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی پسند کے مطابق کھائیں پیئیں ‘ موج اڑائیں ۔ سرکارنے جب یہ منصوبہ بنایا تو اسے شاید معلوم نہیں تھا کہ اس کی اختیار کی ہوئی معاشی پالیسیوں سے ایک روز صورتحال یہاں تک بگڑ جائے گی کہ سرکاری ملازمین تو کیا اس کے (لے پالک) جانور بھی بھوک کا شکار ہوجائیں گے ۔ یعنی باتیں کروڑوں کی ‘ کان پکوڑوں کی ‘ اور یہ پکوڑوں کی بات ہم نے اس لئے بھی کی ہے کہ گزشتہ دو تین مہینے سے صوبائی حکومت اپنے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی میں بھی ناکامی سے دو چار ہو رہا ہے ‘ غالباً گزشتہ سے پیوستہ مہینے صوبائی حکومت کو وفاقی حکومت مالی مدد فراہم نہ کرتی تو ملازمین اور پنشنرزکو بروقت تنخواہیں اور پنشن ادا نہ کی جاسکتی ‘ اور اب ایک بار پھرتین چار روز پہلے ملازمین کو ماہانہ مشاہرہ ادا کرنے کے لالے پڑنے کی خبریں آئی تھیں ‘ یہ الگ بات ہے کہ بعض اخباری اور میڈیا اطلاعات کے مطابق ”حقیقی آزادی مارچ” کے لئے مبینہ طور پر صوبائی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے ‘ تو پھرایسی”حقیقی آزادی” کا کیا فائدہ جو سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن روک کر صوبائی وسائل سے چلا کر آزادی حاصل کی جارہی ہے ‘ اور نوبت بہ ایں جار رسید کہ اب بے چارے بے زبان جانوروں کے اخراجات پر بھی پچاس فیصد کٹ لگا کر انہیں بھوک سے مارا جارہا ہے ۔ یعنی بقول خواجہ حیدر علی آتش
مجھ میں اور شمع میں ہوتی تھیں یہ باتیں شب ہجر
آج کی رات بچیں گے تو سحر دیکھیں گے
میئر پشاور حاجی زبیر علی نے اس موقع پر آگے آتے ہوئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ صوبائی حکومت عوام کو ریلیف دینے اور جانوروں کی دیکھ بھال میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور عوامی مسائل کے ساتھ ساتھ چڑیا گھر کے تمام جانورو بھی بھوک کا شکار ہیں ‘ جس کی وجہ سے ان کی اموات کا شدید خطرہ بڑھ گیا ہے ‘ا گر صوبائی حکومت پشاور کے اکلوتے چڑیاگھر کی دیکھ بھال اور جانوروں کو خوراک اور ملازمین کو تنخواہ نہیں دے سکتی تو چڑیا گھر کو کیپٹل میٹروپولیٹن گورنمنٹ کے حوالے کر دیں ‘ تاکہ چڑیا گھر کے تمام ترانتظامات مکمل طور پر کر سکیں۔ میئر پشاور کے بیان کو ممکن ہے کچھ لوگ پوائنٹ سکورنگ قرار یں کہ ایک تو کیپٹل میٹروپولیٹن گورنمنٹ اور صوبائی حکومت کے مابین اختیارات کی تقسیم اور فنڈز کی فراہمی پر”دنگل” کی سی صورتحال پہلے ہی قابل توجہ ہے ‘ صوبائی حکومت نے بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے بعد”بوجوہ” فنڈز کی فراہمی میں مبینہ طور پر مخالفانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے کیونکہ خصوصاً ان علاقوں کے بلدیاتی ادارے جہاں دیگر سیاسی جماعتوں کے حمایت یافتہ افراد برسراقتدار ہیں ان اداروں کو فنڈز کی فراہمی محاورتاً ٹیڑھی کھیر بن چکی ہے پھر بھی اگر اس بیان کو ”جانوروں” سے محبت سے تشبیہ دے بھی دی جائے تو ایسے نہ ہو کہ آنے والے دنوں میں پشاور کے بلدیاتی ادارے کو بھی فنڈز کی کمی کا رونا روتے ہوئے یہ فیصلہ نہ کرنا پڑی جائے کہ فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے جانوروں کی ”نیلامی” ضروری ہوگئی ہے ۔ ویسے خدا لگتی کہئے تو بے چارے بے زبان جانوروں کو بھوک سے مارنے کے بجائے کیوں نہ انہیں جنگل میں آزاد چھوڑ دیا جائے جہاں وہ قدرتی ماحول میں زندگی گزار سکیں۔ ویسے بھی جو سرکار اپنے ملازمین اور پنشنرز کو باقاعدہ ادائی نہ کرسکے اسے جانوروں کو بھوکا مارنے کا کیا حق حاصل ہے ‘ بقول فیض احمد فیض
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے ۔

مزید پڑھیں:  شہر کے بڑے ہسپتالوں میں ڈسپلن کا فقدان