کھیتی رکھے باڑ کو باڑ رکھے کھیتی کو

گزشتہ جمعرات کو ملک میں ایک بڑا سانحہ ہو گزرا کہ پاکستان کے قومی لیڈر عمر ان خان پر قاتلا نہ حملہ ہوا ، اللہ کا بڑا کر م رہاکہ وہ صحیح سلا مت رہے لیکن اس سے بھی بڑ ھ کر سانحہ اس بے گنا ہ معظم گوندل کا ہو ا جو اپنی تین چھوٹی ننھی منی بچیو ں کے ساتھ عمران خان کے طولا نی کو چ(لا نگ مارچ ) میں شریک ہو اتھا ، ایک نجی ٹی وی کے اینکر پر سن اور خود مبینہ ملز م نے بلکہ اب تو وہ مجر م ہو گیا ہے کیو ں کہ اس نے اعتراف جر م ایک ویڈیو کے ذریعے کر لیا ہے بتایا کہ معظم گوندل کو گولی عمر ان خان کے کینٹنر سے چلائی گئی گولیو ں سے لگی اس کی ٹانگ کو تین گولیا ں لگیں ، چونکہ گولیوںکی بو چھا ڑ کی بنا ء پر ہر طرف افراتفری مچ گئی تھی اورہرکوئی مقبول لیڈر کی خیریت کی جان کا ری کا متمنی تھا اس لیے بے سہا ر ا معظم گوندل کی تڑپتی لا ش کی طرف متوجہ نہیں ہوا اور سسک کر جا ن سے ہا تھ دھو بیٹھا ، ہمر اہ بچیا ں آہ وبکا کر تی رہ گئیں کیو ں کہ وہ اپنی عمر کے لحاظ سے اتنی باشعور نہ تھیں کہ فیصلہ کر پاتیں کہ انھیں کیا کر نا چاہیے ، مجمع کو اپنے باپ کی تڑپ کی طرف متوجہ کرائیں وہ صرف یہ کہتی رہ گئیں کہ پا پا اٹھو ہم کس کے ساتھ گھر جائیں گے ،ان کی یہ صدا بہ صحرا ثابت ہوئی ، معظم گوندل ایک مزدورکا ر تھا، ایک چھوٹے سے گھر کا مکین تھا جس کا کرایہ بھاڑا بھی بمشکل پوراکرتا اور خود کو عمر ان خان کا ٹائیگر بنا رکھا تھا پارٹی کی خدمت میں پیش پیش رہتا تھا ، وہ جو محاورہ ہے کہ غریب کی لا ش بے گور وکفن پڑی رہتی ہے ، کچھ ایسا ہی رہا ، معظم بٹ کے جنا زہ میں تحریک انصاف کا کسی بھی سطح کا لیڈر شریک نہیں ہوا ۔اور اب تک اس کے قتل کی کوئی ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے ۔نہ ہی کوئی لیڈر تعزیت کے لیے مقتول کے گھر گیا ،دونو ں واقعات عمر ان خان پر قاتلانہ حملہ اور معظم گوندل کا اس طر ح جان بحق ہونا قبیح ترین فعل ہیں ، پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے ، طولا نی کُوچ (لانگ مارچ ) کو پر امن رکھنے اس کے لیے حفاظتی اقداما ت کرنے ، واقع کے رونما ہونے کے بعد کے تما م امو ر کی ذمہ داری پنجا ب حکومت پر آتی ہے ،یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ عمر ان خان وفاقی حکومت اور خاص طور پرفوج جیسے حساس ادارے کے خلا ف کیو ں احتجاج کرارہے ہیں۔ کیا اس کے نتائج سے پی ٹی آئی کی قیادت آگا ہ نہیں ہے ، سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ پنجا ب میں پی ٹی آئی حکومت کر رہی ہے وہا ں مشیر محکمہ داخلہ پی ٹی آئی کا ہی اپنا ہے اتحادی میں سے نہیں پھر طولانی کُوچ کے لیے حفاظتی انتظامات کیو ں نہیںکیے ،جبکہ یکم نو مبر کو پنجاب پولیس کی جانب سے ریڈالڑت جاری کردیا گیا تھا اورمشورہ دیاگیا تھاکہ عمر ان خان کے کنٹینر پر بولٹ پروف شیشہ لگا یا جا ئے بولٹ پروف شیشے کا بندوبست کیو ں نہیں کیا گیا ، سانحہ کے رونما ہو نے کے بعد جب عمر ان خان اسپتال پہنچے تو انھوں نے پارٹی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر اور اسلم کمال کو طلب کر کے ہدایت دی کہ شہباز شریف ، رانا ثناء اللہ اور میجر جنرل فیصل نصیر کو اس سانحہ کا ذمہ دار قرار دو ، کہا جا تا ہے کہ اسد عمر نے میجر جنرل فیصل نصیر کے نام پر اختلا ف کیا ، تاہم قائد کے حکم پر انھو ں نے ذرائع ابلا غ کو بتایا کہ عمر ان خان کا کہناہے کہ یہ تین افراد یعنی شہبازشریف ، رانا ثناء اللہ اور میجر جنرل فیصل نصیر کی سازش ہے ، اسد عمر نے عمر ان خان کے حوالے سے بات پی ٹی آئی کی قیادت پر ڈال دی ، اپنادامن بچا لے گئے ، یہا ں واضح رہے کہ جب محترمہ بے نظیر کے قتل کا واقعہ رونما ہو اتھا ، تب بھی پنجاب میں پر ویز الہی وزیر اعلیٰ کے عہد ے پر فائز تھے ، اس سانحہ پر پی پی نے کوئی سیاسی کھیل نہیں کھیلاتھا ، حالاں کہ بے نظیر بھٹو کے جیالے بھی ان مو ل تھے اور بے نظیر بھٹو کے قتل ہو نے سے پورے پاکستان میں جذبات وغصہ اور غم کی آگ بڑھک اٹھی تھی اس وقت آصف زرداری نے ایک محب وطن پا کستانی ہو نے کے نا تے نعرہ لگا یا کہ ” پاکستان کھپے ” اس طرح پی پی کے جیا لوں کے جذبات کی آگ ٹھنڈی کی ، اس وقت پنجا ب اور کے پی کے میں پی ٹی آئی کے ٹائیگر سٹرکوںپر نکلے ہوئے ہیں اور احتجا ج کر رہے ہیں ، پشاور میں رات کو یو تھیئے کو ر کما نڈر ہا ؤس کے سامنے جمع ہوگئے ، وہا ں موجو د ایک بکتر بند گاڑی پر اچھل کو د شروع کی اور احتجا ج کی بجائے اس اچھل کو د سے نفرت کا اظہا ر کیا گیا ، وہا ں موجو د میڈیا بھی جس انداز میں تفصیلات بیان کررہا تھا وہ بھی اقدار کے دائر ہ سے باہر تھا ، پولیس یہا ں بھی مو جو د تھی لیکن خامو ش تماشا بین تھی ، راولپنڈی اسلا م آباد کے سنگم پر بھی احتجاج ہوا ، جہا ں ایک غریب محنت کا ر کی مو ٹرسائیکل احتجاجیوںنے جلا ڈالی ، وہ وہا ںکھڑا روتا رہا کہ وہ اس کی مزدوری کا اثاثہ تھا ، کیا یہ احتجا ج کا معزز طریقہ ہے کہ کسی کے نجی اثاثہ کو بھسم کردیا جائے جب کہ وہ سانحہ کو قصور واربھی نہیںہے ، ان احتجاجیوں پر اسلام آباد پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور تقریبا ًبیس کے قریب پی ٹی آئی کے ورکر وںکو گرفتا کرلیا ، احتجا ج لا ہو ر میں بھی ہو ا جہا ں گورنر ہاؤس کا گھیر اؤ کیا گیا ،گورنرہاؤس کی آہنی باڑسے کو د کر اند ر جانے کی سعی بھی کی ایک اطلا ع کے مطابق گورنرہاؤس کے گیٹ کو بھی نقصان پہنچایا ، اس احتجا ج میں بھی پنجا ب سہو لت کا ر نظر آئی ، اب سمجھ سے باہر ہے کہ پنجا ب گورنر ہا ؤس کے باہر احتجا ج کا کیا مقصد تھا ، یہ تو درست ہے کہ وفاقی حکومت کی سفارش پرگورنرکی تقرری صدر کر تا ہے اوروفاق میںمسلم لیگ ن اور اتحادیو ںکی حکومت ہے تاہم گورنر آئینی طور پر وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے اور اس لحاظ سے وہ صدر کی نمائندگی کرتا ہے ، صدر مملکت عارف علوی ہیں جو پی ٹی آئی سے تعلق رکھتے ہیں الہذاتما م گورنر ز ان کی صوبوں میں نمائندگی کررہے ہیں ،ایسے میں پی ٹی آئی کا پنجاب کے گورنر کے خلا ف احتجاج سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے ،علاوہ ازیںعمران خان اس روز سے میجر جنرل فیصل نصیر کے درپے ہیں جس روز سے ان کی تقرری بحثیت ڈی جی سی کے ہوئی ہے ، ڈائر یکڑ جنرل کاؤنٹر اہم ترین عہد ہ جو داخلی سلا متی سے امور کے معاملا ت نگبہان ہے ، ان کو صرف تین ماہ ہی ہوئے ہیں ، عمر ان خان کے 2014کے دھر نے سے وزیر اعظم کی کر سی پر براجما ن ہونے تک اسی عہد ے کی پشت بانی رہی ہے ، جب ظہیر السلام ڈی جی آئی ایس آئی تھے تب جنرل فیض حمید ڈی جی سی کے عہدے پر فائز تھے ، جنرل ظہیر السلا م نے ہی جنرل فیض حمید کا تعارف عمر ان خان سے کرایا تھا تب سے پشت بانی شروع ہوئی ، پس منظر میں اور بھی کچھ ہے تاہم تنگی دامان کالم کی وجہ سے ادھورا رہ رہا ہے اس موضوع پرپھر کبھی سہی ۔

مزید پڑھیں:  ہے مکرر لب ساتھی پہ صلا میرے بعد