پولرائزیشن کا خطرناک رحجان

موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والے حالیہ سیلاب کی آفت نے پورے ملک کو کسی نہ کسی لحاظ سے متاثر کیا ہے، تاہم حکومت، پاک فوج اور قومی اور بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے جس طرح کا بھرپور اور فوری ردعمل کا مظاہرہ کیا گیا وہ بھی متاثر کن ہے۔ ناگہانی آفات کے علاوہ بھی ہم ان کے ہم پلہ ایک تباہ کن نوعیت کے خطرے کی زد میں ہیں اور وہ خطرہ تیزی سے بڑھتی ہوئی پولرائزیشن یا تقسیم کا ہے، اس پولرائزیشن نے ہمارے اقدار پر مبنی ماحولیاتی نظام اور پورے سماجی اور سیاسی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کیا ہے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پولرائزیشن (تقسیم) دنیا بھر کے معاشروں کی بنیادوں کو ہلا رہی ہے، یہ برازیل اور ہندوستان سے لے کر پولینڈ تک اور ترکی سے پاکستان تک کمزور جمہوریتوں کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہے، چنانچہ یہ صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے۔
پاکستان، بنگلہ دیش، برازیل، کولمبیا، بھارت، انڈونیشیا، کینیا، پولینڈ، ترکی اور امریکہ جیسے ممالک کو کسی نہ کسی صورت میں پولرائزیشن کا سامنا کرنا پڑا، حتیٰ کہ پاکستان، کولمبیا، کینیا اور پولینڈ جیسی مختلف جمہوریتوں میں بھی پولرائزیشن کی مماثلت باعث تعجب ہے ۔
تھامس کیروتھرز کارنیگی، جو ڈیموکریسی کنفلیکٹ اینڈ گورننس پروگرام کے معاون ڈائریکٹر ہیں، نے ایک تحقیقی آرٹیکل میں لکھاکہ خاص طور پر حیران کن بات یہ ہے کہ تقسیم پیدا کرنے والے رہنما اکثر بہت فیصلہ کن اہمیت اختیار کر جاتے ہیں، امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ، بھارت میں نریندر مودی اور پولینڈ میں جاروسلاو کازنسکی جیسی شخصیات نے معاشروں میں بنیادی تقسیم کو مسلسل بھڑکایاجس نے پورے معاشرے میںکو اپنی لپیٹ میں لے لیا، ان رہنماؤں نے نہ صرف مخالفین کو برائی کے طور پر پیش اور جمہوری عمل کو سبوتاژ کر کے کشیدگی کو بڑھا یا بلکہ بنیادی اقدار کو پامال کرنے کی حامل تبدیلی کے لئے راہ ہموار کی جیسا کہ انتخابی نتائج کو رد کرنا، اداروں کو نشانہ بنانا اور اپنی حکومتوں کے خاتمے کے خلاف احتجاج کرنا ہے، میڈیا انڈسٹری کے تکنیکی طور پر استعمال اور سوشل میڈیا جیسی آسان رسائی کی وجہ سے ایسی شخصیات کی میڈیا میں خاصی مقبولیت ہے، پھر لوگوںکو سیاسی شعور نہیں ہونا بھی ایک بڑی ہے،لوگ جتنے زیادہ سیاسی طور پر نابلد ہوں، پولورائزیشن کی آگ اتنی ہی زیادہ پھیلتی ہے
شدید پولرائزیشن یا تقسیم قومی تعمیر کے لیے ناگزیر تمام اداروں کو نقصان پہنچاتی ہے، یہ معمول کے مطابق عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرتی ہے کیونکہ اس کو پروان چڑھانے والے سیاست دان خاص طور پر عدالتوں کو نشانہ بناتے ہیں، یہ مقننہ کا کردار ربڑ سٹمپ جیسا بنا دیتی ہے، اس کے علاوہ دوسرے اہم اداروں جیسے فوج، بیوروکریسی، میڈیا اور یہاں تک کہ سول سوسائٹی کا بھی ایسا ہی حشر ہوتا ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ پولرائزیشن رواداری اور اعتدال جیسے غیر رسمی لیکن اہم بنیادی اصولوں کو بھی پامال کرتی ہے، یہاں تک کہ یہ گھریلو سطح پر بھی روزمرہ کے روابط اور تعلقات کو زہر آلود کر دیتی ہے۔
پاکستان میں پولرائزیشن یا تقسیم کے حوالے سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران بھی ملک کا اتحاد سیاسی تقسیم کا شکار ہو گیا، دراصل ایک بار جب کوئی معاشرہ تقسیم ہوجائے تو پھر اسے ٹھیک کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، پولرائزیشن کا رجحان بہت تیز رفتاری سے بڑھتا ہے، صرف چند سال یا اس سے بھی کم عرصے میںیہ پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے لیتا ہے ، تقسیم پر مبنی اقدامات اور رد عمل ایک دوسرے کو ہوا دیتے ہیں، یوں معاشرے غصے، نفرت اور تقسیم کا شکار ہو کر زوال پذیر ہو جاتے ہیں۔
چیلنجزکے باوجود کچھ ایسے اقدامات ہیں جن کے ذریعے معاشرے میں تقسیم کو روکا جا سکتا ہے، جن میں مکالمے کی کوششوں اور میڈیا اصلاحات سے لے کر قومی،بین الاقوامی اقدامات تک شامل ہیں، پہلا یہ کہ ادارہ جاتی اصلاحات لائی جائیں، جیسا کہ سیاسی طاقت کو تقسیم کرنا یا انتخابی قوانین میں تبدیلی لا کر شمولتی نظام کی طرف پیشرفت کرنا، مثال کے طور پر کینیا نے بڑے پیمانے پر انتخابی فسادات کے بعد2010 ء میں ایک نیا آئین منظور کیا جس میں علاقائی عہدیداروں کو زیادہ خود مختاری اور ریاستی وسائل پر کنٹرول دے کر قومی سطح عہدے کے حصول کے لئے سخت مقابلہ بازی کے رحجان کو کم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
دوسرا یہ کہ پولرائزیشن کو محدود کرنے کے لیے قانونی یا عدالتی اقدامات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، مثال کے طور پر، بھارت میں سپریم کورٹ نے جمہوری اداروں کے دفاع میں بات کی اور نفرت انگیز جرائم اور سیاسی تشدد پر زیادہ سے زیادہ احتساب کا مطالبہ کیا ہے،تیسرا، دانش مند سیاسی قیادت معاشرے میں متعصبانہ تقسیم کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے، چوتھا، یکساں طور پر قابل قبول بیانیہ کو تشکیل دینا اور اس کا پرچار کرنا ہے لیکن اس کے لیے ایسی کرشماتی اور عوامی قیادت کی ضرورت ہے، جو مقبولیت کی بنیاد پر اوپر آئے، اسی طرح سوشل میڈیا کے لیے ایک متعین ریگولیٹری میکانزم پولرائزیشن سے نمٹنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے، اگر معاشروں کو پولرائزیشن یا تقسیم کے بڑھتے ہوئے خطرے سے کامیابی کے ساتھ نمٹنا ہے تو اس چیلنج کا مقابلہ جامع، معتدل اور عملی انداز میں کوششیں کرنا ہوں گی۔
( بشکریہ دی ، نیوز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  ہے مکرر لب ساتھی پہ صلا میرے بعد