بال چیف جسٹس کے کورٹ میں؟!

وزیر اعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے مطالبہ کیاہے کہ وہ عمران خان کے الزامات پر فل کورٹ کمیشن تشکیل دیں، اگر عمران خان حملے میں میری موجودگی کے ثبوت پیش کئے تو عہدے سے مستعفی ہو کر ہمیشہ کیلئے سیاست بھی چھوڑ دوں گا۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ رانا ثناء اللہ کے خلاف عمران خان کی ذاتی ہدایات پر ہیروئن کا کیس بنایا گیا،انہوں نے آرمی چیف کو لامحدود توسیع کی بات کی،اب نیوٹرل،جانور کیا کیا کچھ کہتے ہیں،انہوںنے کہا کہ عمران خان کو جب گولیاں لگیں تو تین گھنٹے کا سفر کر کے شوکت خانم ہسپتال کیوں گئے؟قانون کے مطابق میڈیکل سرکاری ہسپتال دیتاہے،اگر یہ اپنی مرضی کی ایف آئی آر کروانا چاہتے ہیں تو کروادیں،انہوں نے کہا کہ اگر ان کے پاس ثبوت ہے تو لے آئیں،مجھے پھر ایک منٹ بھی وزیر اعظم رہنے کا حق نہیں،وزیر اعظم نے کہا کہ پنجاب حکومت، اسپیشل برانچ، آئی بی آپ کے پاس ہے، اس کی تحقیقات کرائیں، وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت نے28 اکتوبر کو لانگ مارچ میں دہشت گردی کے خطرے کا الرٹ جاری کر دیا تھا، عمران خان فوج پر ایسے حملہ آور ہے جیسے کوئی دشمن ہو، الزامات عائد کر کے قوم کو جھوٹ اور فراڈ سے گمراہ کیا جا رہا ہے، وزیر اعظم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ عمران خان واقعے کو سازش قرار دے کر اس کا الزام رانا ثناء اللہ، ادارے کے ایک افسر اور مجھ پر عائد کر رہے ہیں جو نہایت افسوس ناک بات ہے۔ وزیر اعظم نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ عمران خان کے الزامات کی تحقیقات کیلئے فل کورٹ تشکیل دیں، انہوں نے اس حوالے سے چیف جسٹس کو تحریری درخواست بھیجنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر چیف جسٹس نے فل کورٹ نہ بنایا تو یہ قوم اور تاریخ میں سوالیہ نشان ہوگا،قوم کافل کورٹ پر مکمل اعتماد ہو گا، انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کی کہ ارشد شریف کے معاملے پر بھی فل کورٹ بنایا جائے تاکہ ساری حقیقت سامنے آئے، ادھر وفاقی وزیراطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب نے کہا ہے کہ عمران خان سکاٹ لینڈ یارڈ سمیت جہاں سے چاہیں تحقیقات کرائیں تاہم ہماری شرط صرف یہ ہے کہ عمران خان خود تحقیقات میں شامل ہوں اور الزامات کا ثبوت فراہم کریں،امر واقعہ یہ ہے کہ عمران خان پر گزشتہ دنو ں ہونے والے حملے کے حوالے سے اس وقت اگرچہ ریگولر اور سوشل میڈیا پر لاتعداد سوال گردش کر رہے ہیں اور ان پر غور کرنے سے ہر شخص اپنی صوابدید کے مطابق اگرچہ نتائج اخذ بھی کر رہا ہے۔ بعض لوگ ایک دوسرے کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات کے جوابات بھی دے رہے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف سیاسی فضا خراب ہو رہی ہے بلکہ غیر ضروری بحث مباحثے میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جو سیاسی تلخی میں اضافے کا باعث بنتا جا رہا ہے، حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک مشہور مقولے کے مطابق جس کا کام اسی کو ساجھے،اس مسئلے کو متعلقہ اداروں اور ماہرین پر چھوڑ دینا ہی بہتر ہے جو تحقیقات کے بعد اصل حقائق اور ان کے محرکات کو سامنے لانے میں ممدو مددگار ہو سکتے ہیں،اس حوالے سے وزیر اعظم شہباز شریف کا چیف جسٹس آف پاکستان سے تحقیقات کیلئے فل کورٹ تشکیل دینے کا مطالبہ مناسب بھی ہے اور بروقت بھی، اس لئے کہ عمران خان نے جن تین شخصیات پر اپنے خلاف اس حملے کا الزام عائد کیا ہے اس کی تحقیقات اگر کسی بھی دوسری سطح پر ہوں تو ممکن ہے اس پر سوال اٹھنے شروع ہو جائیں، اس لئے سپریم کورٹ کے معزز ججوں پر مشتمل تین،پانچ یا سات رکنی بینچ اگر تحقیقات کرے اور بعد میں تحریک انصاف ان پر بھی سوال اٹھائے تو اس سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہو گا، سو بہتر ہے کہ فل کورٹ ہی اس حوالے سے واقعے کی تحقیقات کر کے قوم کے سامنے نتائج رکھ دے،اس حوالے سے وزیراطلاعات کی یہ پیشکش بھی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے کہ تحقیقات سکاٹ لینڈ یارڈ سمیت دنیا کی کسی بھی تحقیقاتی ایجنسی سے عمران خان کی مرضی سے کرانے پر تیارہیں تاہم عمران خان کو ان تحقیقات کا حصہ بننا پڑے گا،جو بالکل منطقی بات ہے اس لئے کے مدعی اگر تحقیقات کا حصہ نہ بنے تو تفتیش مکمل کیسے ہو سکتی ہے،اسی طرح ارشد شریف والے سانحے کی تحقیقات کیلئے بھی وزیر اعظم نے فل کورٹ بنانے کا جو مطالبہ کیا ہے وہ بھی موجودہ حالات میں بہت ضروری ہے اور اس حوالے سے سابق وفاقی وزیر تحریک انصاف کے رہنمامراد سعید نے ارشد شریف قتل کیس کے شواہد و حقائق تین جگہ محفوظ کرنے کی جو بات کی ہے ان کو بھی سپریم کورٹ کے مجوزہ کمیشن کے سامنے پیش کرنے میں تحریک انصاف کو کوئی تامل نہیں ہونا چاہئے،اب وزیر اعظم شہباز شریف کے اس مطالبے کے بعد بال اگرچہ سپریم کورٹ کے کورٹ میں ہے جس پر چیف جسٹس آف پاکستان کو جس قدر جلد ممکن ہو فیصلہ کرکے تحقیقات کو آگے بڑھانے کی درخواست کی جا سکتی ہے تو تحریک انصاف خصوصاً عمران خان کو بھی اس حوالے سے مکمل تعاون کر کے مجوزہ کمیشن کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا بھرپور موقع فراہم کرنا پڑے گا، بصورت دیگر یہ مسئلہ اگر اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچایا گیا تو اس سے کئی سوال ابھر کر آنے والے وقت میں پورے واقعے پرمکدر کی فضا قائم کرنے کا باعث بنیں گے،جو کسی بھی صورت میں ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہو سکتے،اور اس واقعے کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات میں مسلسل اضافہ کرتے رہیں گے،امید ہے چیف جسٹس آف پاکستان قوم و ملک کے بہترین مفاد میں اس حوالے سے جلد از جلد فل کورٹ کمیشن کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے ٹائم فریم بھی دیدیں گے،تاکہ کسی بھی حوالے سے تاخیر نہ ہو اور نتائج جلد از جلد قوم کے سامنے آ سکیں۔

مزید پڑھیں:  شہر کے بڑے ہسپتالوں میں ڈسپلن کا فقدان