مٹی سے مٹی تک

رزق صرف روپیہ پیسہ نہیں بلکہ قرآن وحدیث کی روسے ایمان کی دولت ‘ علم ذہانت اور سمجھداری و حکمت ‘ صحت ‘ عافیت اور اعضاء کی سلامتی نیک بیوی ‘ نیک اولاد ‘ نیک پڑوسی ‘ مخلص دوست اور لوگوں کی محبت یہ سب رزق میں شامل ہیں اب آپ خود ہی اپنا جائزہ لیں کہ آپ محروم ہیں یا نعمتوں سے مالا مال لیکن ہم کم ہی ان ساری چیزوں کو رزق سمجھتے ہیں ہمارے لئے روپیہ پیسہ ہی اہم ہوتا ہے آخر ہم معاشرتی اور ملکی مسائل کا حل پیسہ ہی کو کیوں سمجھتے ہیں میرے خیال میں یہ ایک تاثر ہے جسے یکسر مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا اور اس سے کامل اتفاق بھی ممکن نہیں یقینا روپیہ پیسہ آج کل کی ایسی ضرورت بن چکی ہے کہ پیسہ پھینک تماشا دیکھ کا محاورہ سچ لگنے لگتا ہے جیب میں پیسہ ہو تو تو معاشرے میں عزت و مقام اور سلام کرنے والے بہت رشتہ دار اور دوست بھی پوچھتے ہیں تعلقات ہی تعلقات حالات دگر گوں ہوں تو اپنے بھی پرائے ہوتے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مطلب کی دنیا غرض کی دوستی اور رشتہ داری ہے آپ کے پاس پیسہ ہو اور کالی عینک لگا کر چمکیلی گاڑی میں جا رہے ہوں تو ہر آدمی سمجھتا ہے کہ معزز ‘ تعلیم یافتہ اور باشعور و مہذب شخص ہے اور اگر یہی شخص پیدل اور سائیکل پر سادہ لباس میں نکلے تو راہ چلنے والے سلام کا بھی جواب نہ دیں۔ اس مادیت پرستی ہی سے تو خود غرضی جنم لیتی ہے یہ مادہ پرستی ہی ہے جس کے سر چڑھے جادو کے چل جانے سے آج ہر کوئی جائزو ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے کی تگ و دو میں ہے جن لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری نہیں ہوتیں ان کے تو مجبوری ہے اور جو طبقہ اپنے بچوں کی بہتر تعلیم اور تھوڑی بہت آسانیوں کے لئے محنت میں لگا ہے وہ تو درست جو لوگ محض دولت کے حصول کی تگ و دو میں دوسروں کے حقوق تک غضب کرتے دکھائی دیتے ہیں میرے نزدیک یہی وہ لوگ اور یہی وہ طبقہ جو معاشرے میں استحصال کے ذمہ دار ہیں بدقسمتی سے آج کے معاشرے میں اس طبقے کو کوئی استحصالی طبقہ سمجھتا ہی نہیں بلکہ یہی تو ہمارے معاشرے کے وہ برائے نام شرفاء ہیں جن کو لوگ برا سمجھتے اور ان سے کترانے کی بجائے ان سے قریب ہونے اور ان کے جیسا ہونے کی تگ و دو میں ساری حدیں پار کر جاتے ہیں حلال و حرام کی تمیز نہیں رکھی جاتی ان کے دیکھا دیکھی لوگ حلال کی برکات اور حلال کے تھوڑے ہونے کو بھول کے حلال حرام جو بھی ہو بہت ہو کے چکر میں ایسا پڑ جاتے ہیں کہ ہو ش آنے پر عمر تمام ہو چکی ہوتی ہے ہم یہ کیوں نہیںسوچتے کہ دنیا میں سب کچھ پیسہ نہیں ہوتا دیانت ‘ امانت ‘ ایمانداری اور اطمینان قلب بھی کوئی چیز ہوتی ہے روپیہ پیسہ بنیادی ضروریات کو پورا کرنے اور سہولتوں تک تو ٹھیک ہے لیکن اگراسے ہی باپ بنا دیا جائے تو پھر یہ ایسا باپ بن جاتا ہے کہ ساری زندگی اسی کی غلامی میں گزر جاتی ہے لوگوں کی بد دعائیں اور حق تلفی بھی نظر نہیں آتی آنکھوں پر پٹی اور سماعت متاثر ہوتی ہے کہ حق اورحق کی بات سننا اور دیکھنا گوارا نہیں ہوتا یہیں سے دولت عذاب کی صورت اختیار کر جاتی ہے ورنہ روپیہ پیسہ بری چیز نہیں نعمت ہے بشرطیکہ اسے صحیح طریقے سے حاصل اور خرچ کیا جائے کہیں پڑھی تھی کہ بعد وفات اگر حالات کا نظارہ کرنے کے بعد کسی مردے کو دنیا میں واپس بھیجا جانا ہوتا تو وہ سب سے زیادہ فوقیت صدقہ کو دیا کرو مہربانی تو اہل زمیں پر اللہ مہرباں ہوگا عرش بریں پر جولوگ خود محتاج ہیں اور ضرورت مند ہیں وہ بھی اگر ایثار کرکے کسی نہایت محتاج کی مقدور بھر مدد کا طریقہ اپنائیں تو بدلے میں مالک کائنات ان کے مسائل دور فرماتے ہیں کسی حقیقی ضرورت مند کی مدد مالک کائنات کو قرض دینا قراردیا جاتا ہے ذرا سوچئے کہ جو مالک کائنات کو قرض دے گا تو مالک کائنات کا رحم و کرم تو لازم خود اس کے مال میں برکت اور اضافہ بھی کہیں گیا نہیں اگر معاشرے میں ہم خود ہی باپ نہ بھیا سب سے بڑا روپیا والا معاملہ کریں تو پھر ہمارے بارے میں بھی اسی قسم کا فیصلہ آسمان سے آئے گا اور ہم کبھی بھی ان مسائل سے نکل نہیں پائیں گے ۔ایک مسلمان کی زندگی کا فلسفہ مٹی سے مٹی تک کے درمیان کا قت ہوتا ہے اسے مہلت ‘ کہیں زندگی کہیں کچھ بھی کہیں یہ امتحان وقت ہوتی ہے اس وقت کا آج جو جس طرح استعمال میں لائے گا کل ان سے اس کا اس طرح سے حساب لیا جائے گا جو حساب دے سکے گا وہی پاس ہو گا ہم میں سے ہر کوئی اس وقت کو مادہ پرستی ‘ عیش کو شی میں گزارنے کا خواہشمند ہے اسی لئے تو ایک دوڑ لگی ہوئی ہے وگر نہ ہماری کل ضروریات کیا ہیں تن پہ کپڑا پیٹ پوجا اور سر پر چھت اور بس ۔ باقی یہ جھمیلے یہ ٹھاٹھ باتھ یہ سہولت و تعیشات ہماری خواہشات ہیں جو لوگ اول الذکر کے لئے سرگردان رہنے پر مجبور ہیں وہ حصول رزق حلال کی عین عبادت میں مصروف ہیں حلال کا حساب بہت ہی مشکل ہو گا حرام اورناجائز دوسروں کا استحصال کرکے کمائی گئی دولت و بال جاں ہو گی جس دن ہمیں اس فلسفے کی سمجھ آجائے گی اس دن سے استحصال اور مادہ پرستی سے نفرت ہونے لگے گی ہمارے مسائل کے حل میں مال و اسباب کی اہمیت ضرور ہے لیکن اصل امتحان ان مال و اسباب کے حصول کے ذرائع اور طریقہ کار اختیار کرنے کا ہے یہ چند روزہ زندگی عسرت میں بسر ہو یا عشرت میں گزر ہی جانی ہے اس چند روزہ زندگی میں جو لوگ سکھ بانٹتے ہیں یا سکھ دینے کا جذبہ رکھتے ہیں دوسروں کے کام آتے ہیں یا پھر کوشش ہی کرتے ہیں اور وسعت و قدرت نہ رکھنے پر کسی کے کام نہیں آسکتے صرف نیت نیک رکھتے ہیں وہ کبھی بھی ناخوش اور غیر مطمئن نہیں ہوتے وقتی طور پر مشکلات اور امتحان آبھی جائیں تو قدرت راستہ نکال لیتا ہے ضرورت پوری ہو جاتی ہے بیماری سے صحت یابی ہو ہی جاتی ہے اور اگر اس جدوجہد میں گزر بھی جائیں زندگی مشکلات اور دکھوں سے عبارت ہی گزر جائے پھر بھی بالاخر کامیابی و فلاح سے وہ محروم نہیں ہوتے جو لوگ مادہ پرستی حقوق غصب کرنے کا وتیرہ اپنائیں ان کی بھلے زندگی میں بظاہر غم کا کوئی حصہ نظر نہ بیھ آئے اندر سے دکھی اور بے چینی فطرت ان کا مقدر ہوتی ہے اور وہ سب کچھ ہونے کے باوجود اندر سے ناخوش غیر مطمئن ہی رہتے ہیں زندگی گزارنے کے بعد ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے وہ آسمان و زمین اور روز محشر کا رب جانے کوشش کیجئے کہ اپنے آپ کو بدلئے کوشش کیجئے کہ کسی کی حق تلفی نہ ہو کوشش کی جائے کہ حساب کتاب میں آسانی رہے اور بس۔

مزید پڑھیں:  ہے مکرر لب ساتھی پہ صلا میرے بعد