مشرقیات

وقت بدلتے دیر نہیں لگتی ،آج آپ کی تو کل آپ کے مخالف کے ہاتھ اقتدار آسکتا ہے اس لیے سیانے کہتے ہیں اپنے دشمنوں کی تعداد بڑھانے کی بجائے کم کرو۔اگر آپ اپنے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر نظر ڈالیں یا کپتان کے گرد ان کے مخالفین کا حصار تنگ ہوتا دیکھیں تو آپ کو بھی سمجھ آگئی ہو گی کہ کپتان نے اپنے دور اقتدار میں سیانوں کی بات پر کم ہی توجہ دی تھی بجائے اس کے اپنے سیانے ساتھیوں کو ادھر ادھر کرکے پیرا شوٹر بھرتی کر لیے تھے اب جب ان پر مشکل مقام آیا ہے تو یہ پیرا شوٹر پھر اڑان بھرنے کی تیا ری میں ہیں۔فی الحال تو کپتان کی مقبولیت برقرار ہے تاہم وہ خود بھی نوٹ کر چکے ہوں گے کہ اس مقبولیت کے باوجود ان پر حملے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کارکن کم ہی گھروں سے نکلے ہیں وجہ اس کی اور کیا ہے کہ ان کی جماعت میں آنے والے پیراشوٹرز جو اب منتخب نمائندے بھی ہیں کو کم ہی اس احتجاج سے دلچسپی تھی۔اب لانگ مارچ کا پھر سے مارچ شروع کرنے کا وہ اعلان تو کر چکے ہیں تاہم وزیر آباد حملے کے باوجود نظر نہیں آرہا کہ مارچ میں کوئی نیا جوش وجذبہ پیدا ہو سکتا ہے یہ امکان اس لیے بھی زیادہ ہے کہ کپتان مارچ میں خود موجود ہونے کی بجائے اس سے گھر بیٹھے خطاب کریں گے۔اس فیصلے کے بعد آپ دیکھیں گے کہ بہت سے رہنما بھی کپتان کا خطاب گھر بیٹھے سنیں گے اور مارچ پاسٹ سے دور ہی رہیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ تمام تر مقبولیت کے باوجود آخر کپتان کے کارکن آزمائش کے وقت کہاں غائب ہو جاتے ہیں تو جواب یہ ہے کہ ان کی تربیت سیاسی بنیادوں پر کم ہی کی گئی ہے اب کوئی سوٹی دیکھ کر ہی بدک جائے تو ایسے نوجوان کو مار کھانے اور برداشت کرنے کی تربیت دینے میں صدیاں لگیں گی اور کپتان کے پاس اتنا ٹائم نہیں کہ وہ اپنے مداحوں کی تنظیم سازی پر توجہ دے ۔ عمر کا ساتواں عشرہ گزرنے کے بعد انہیں اچھی طرح معلو م ہے کہ صرف اس مقبولیت کو کیش کرنے کا وقت ہی رہا ہے اور اسکے لیے وہ نظریاتی کارکنوںکی بجائے صرف نظر آتی لاٹ ہی تیار کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔اب مسئلہ یہ ہے کہ ان کے چاہنے والے بے شمار ہیں کسی بھی دوسری جماعت کو یہ لوگ ووٹ دینا پسند نہیں کرتے ،تو کپتان کے بعد یہ نسل کدھر کا رخ کرے گی ۔ کسی ایک سیاسی جماعت کے ہاں بھی کوئی ایسی کشش نظر نہیں آرہی جو نوجوان نسل کو اپنی طرف راغب کرے۔کپتان کی جماعت میں بھی کوئی سرخاب کے پر نہیں لگے ہوئے تاہم جیسے کہ کہا ہے کہ وہ خود ہی سرخاب کے پر بنے ہوئے ہیں اپنی جماعت کے ان کے بعد کوئی بھی ایسا گوہر نایاب نہیں ہو گا ان کی جماعت میں تب یہ لاکھوں کارکن ظاہر ہے دوسری جماعتوں کا رخ کریں گے ان کو” جی آیاں نو”کہنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی پرکشش منشور ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں:  بے جے پی کی''کیموفلاج''حکمت عملی