جمہوریت جمہور کیلئے ہی ہوتی ہے

بلاشبہ یہ بات عام شہریوں کیلئے باعث اطمینان ہے کہ پچھلے چند روز سے جاری تحریک انصاف کے احتجاج سے پنجاب اور خیبر پختونخوا سمیت بعض دوسرے علاقوں میں لوگوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا اس کا احساس کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے کارکنوں کو اسلام آباد کے علاوہ ملک بھر میں احتجاج ختم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ پی ٹی آئی کے حالیہ احتجاج کے دوران جس طرح ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا سبب بننے والے بعض کام ہوئے امید ہے آئندہ جب بھی یہ جماعت احتجاج کا ڈول ڈالے گی تو اس کی قیادت بالخصوص عمران خان اپنے کارکنوں کو سختی کے ساتھ ہدایت کریں گے کہ وہ سڑکوں پر ٹائر اور دوسری اشیا جلانے سے اجتناب کریں گے۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران کئے جانے والے احتجاج میں بعض مقامات پر پی ٹی آئی کے کارکنوں نے شہریوں خصوصا بزرگوں، طلبا اور مریضوں کے لواحقین سے جس طرح نامناسب برتائو کیا وہ افسوسناک ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ ان کی جماعت میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد دوسری جماعتوں کے مقابلہ میں زیادہ ہے امید کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے کارکنوں کو تلقین کریں گے کہ دوران احتجاج ایسا رویہ نہ اپنایا کریں جس سے عوام اور پی ٹی آئی میں دوریاں پیدا ہوں۔ سابق وزیراعظم نے گزشتہ روز یہ بھی کہا کہ مذاکرات کے لئے ہمارے دروازے جمہوریت پسندوں کے لئے کھلے ہیں۔ یہ بھی مثبت سوچ کا اظہار ہے۔ سیاسی عمل میں بات چیت کو ذاتی توہین سمجھ لینے سے نقصان ہی ہوتا ہے فائدہ بالکل نہیں۔ مختلف الخیال مخالفین اور ناقدین کی اختلافی آرا کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنا اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا ہی حقیقت پسندی ہے۔ اب جبکہ عمران خان ایک سے زائد بار یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور(ن)لیگ کے خلاف کرپشن کہانیاں انہیں اسٹیبلشمنٹ نے سنائی تھیں تو انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان نظریاتی اور حکومت سازی کے حوالے سے اختلافات کو نفرتوں میں تبدیل کروانے والوں کے عزائم کیا ہوتے ہیں۔ ملک کی بائیس تئیس کروڑ آبادی میں ایک شخص بھی ایسا نہیں جو احتساب کے نظام کو نادرست سمجھتا ہو البتہ احتساب بلاامتیاز ہونا چاہیے یہی انصاف کا تقاضا بھی ہے۔ وسعت قلبی کے مظاہرے سے صرف نظر کرنے کی بدولت ماضی میں جمہوری نظام اور سیاسی عمل کے ساتھ جو کھلواڑ ہوئے وہ ہماری تاریخ کا ناقابل رشک حصہ ہیں۔
سیاسی جماعتیں اپنے منشور اور اقتدار مل جانے پر اس منشور پر عمل سے ہی سرخرو ہوتی ہیں ان کے مابین اصل مقابلہ بہتر سے بہتر کا حصول اور اسکی لوگوں کو یقینی فراہمی کے میدانوں میں ہونا چاہیے۔ کوئی سیاسی جماعت جب اپنے سوا باقی جماعتوں کے وجود کو ہی تسلیم نہ کرے تو خود اس کی سیاست بند گلی میں پھنس کر رہ جاتی ہے۔ ہماری دانست میں انہوں نے جمہوری قوتوں سے مذاکرات کے لئے دروازے کھلے رکھنے کا اعلان کرکے مثبت سوچ کا مظاہرہ کیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آئندہ انتخابات سے قبل سیاسی عمل میں موجود جماعتوں کے درمیان احتساب، انتخابی اصلاحات، معیشت کی بہتری، تعلیم اور طب کے شعبہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے، غربت اور بیروزگاری کے خاتمے کے لئے سنجیدہ اقدامات پر اتفاق رائے ہوجائے۔ ایسا صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ پی ٹی آئی سمیت ساری جماعتیں ایک ایک قدم آگے بڑھیں اور مذاکرات کے ذریعے مندرجہ بالا امور کے علاوہ دیگر شعبوں میں اصلاحات کے لئے طویل المدتی معاہدہ کریں تاکہ آئندہ انتخابات کے بعد بننے والی اسمبلی ان امور پر قانون سازی کرسکے۔ گو اس ضمن میں بعض حلقوں کی یہ رائے بھی ہے کہ آج کے کام اگلی اسمبلی پر چھوڑنے سے بہتر ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت وسیع قومی و جمہوری مفاد میں قومی اسمبلی سے دیئے گئے اجتماعی استعفوں کو واپس لیتے ہوئے اسمبلی میں جائے اور ایوان میں موجود تمام فریق مل کر قانون سازی کے ذریعے نظام کے استحکام اور جمہوریت کے تحفظ کے لئے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوں۔ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ کوئی جماعت اسٹیبلشمنٹ کے تعاون یا دوسرے کے وجود سے انکار کی سیاست کو دوام دے کر کسی دوسری جماعت کو حرف غلط کی طرح نہیں مٹاسکتی۔ ماضی میں کسی ایک یا دو جماعتوں کو حرف غلط کی طرح مٹادینے کی بہت کوششیں ہوئیں۔ ریاست اور بعض جماعتوں کے اشتراک سے کھیلے گئے اس کھیل کے نتائج بھی لوگوں پر عیاں ہیں۔ اندریں حالات ہم مودبانہ انداز میں پی ٹی آئی کی قیادت سے یہ درخواست کریں گے کہ اگر اسے جمہوری قوتوں سے مذاکرات کی اہمیت کا احساس ہو ہی گیا ہے تو بہت ضروری ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جس سے اس کی ماضی کی سیاست اور رویوں کے باعث پیدا ہونے والی دوریاں کم ہوں ، اس ضمن میں ایک تجویز تو یہی ہے کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں واپس جائے تاکہ انتخابی اصلاحات اور دیگر معاملات کے حوالے سے قانون سازی کرلی جائے۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ مذاکرات کے لئے صرف دروازے کھول دینے کا اعلان کافی نہیں بلکہ اعتماد سازی کے لئے اسے دو قدم آگے بڑھ کر کچھ اقدامات کرنا ہوں گے اولا جملہ مسائل کے حل کے لئے واضح سوچ اپنانا، ثانیا تمام جماعتوں سے غیرمشروط مذاکرات پر آمادگی اور اس کے لئے کمیٹیوں کا قیام ابتدائی دو مرحلے طے کرنے کے بعد آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد۔ ہماری دانست میں ان امور کی انجام دہی ایک ایسے معاہدہ کی راہ ہموار کرسکتی ہے جو میثاق جمہوریت کی طرز کے مزید بہتر معاہدہ کے لئے سازگار ماحول فراہم کرے۔ جناب عمران خان سمیت دیگر سیاستدانوں اور جماعتوں کو یہ بات نہیں بھولتی چاہیے کہ معاشی استحکام سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں۔ معاشی استحکام سے ہی غربت، بیروزگاری، مہنگائی اور دوسرے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ مختلف الخیال سیاسی قائدین وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ عوام کو نفرتوں کی سیاست سے ہمیشہ کے لئے نجات دلائی جائے اور یہ کہ دستور و پارلیمان کی بالادستی سے کسی بھی صورت ایک قدم پیچھے نہ ہٹا جائے۔

مزید پڑھیں:  سنہری موقع سے ذمہ داری کے ساتھ استفادے کی ضرورت