مشرقیات

مدینے سے کچھ لوگ چلے دمشق پہنچے مقصد تھا امیر المومنین خلیفہ المسلمین سے ملنا اس زمانے میں حکومت کی باگ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ہاتھوں میں تھی ملاقات ہوئی تو جو بات خاص طور پر انہوں نے پوچھی وہ یہ تھی کہ ۔۔۔ مدینے کے فلاں مقام پر کچھ فقیر بیٹھا کرتے تھے ان کا کیا حال ہے؟۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز خلیفہ بننے سے پہلے مدینے کے گورنر بھی رہ چکے تھے اپنی گورنری کے زمانے ہی میں انہوں نے خلیفہ ولید بن عبد الملک کے کہنے پرمسجد نبوی کو بہت شاندار اور بہت خوبصورت بنوایا تھا ۔ یہ ولید بن عبد الملک ہی تھے جن کے عہد میں مسلمان ایک طرف اسپین پہنچے دوسری طرف چین و کاشغر اورتیسری طرف سندھ کے علاقے میں لاالہ کا پرچم لہراتے آگئے بڑھے۔
فقیروں کی بات پوچھنے پر حضرت عمر بن عبد العزیز نے ان کے ملاقاتیوں نے کہا اب وہ فقیر اس جگہ نہیں بیٹھتے اللہ تعالیٰ نے ان کے حالات بدل دیئے ہیں۔یاد رکھئے کہ اللہ تعالیٰ بندوں ہی کے ذریعہ بندوں کے حالات بدلتا ہے ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے دور میں معاشی پالیسی ایسی اختیار کر رکھی تھی کہ اسلامی مملکت میں عام آدمی کی حالت سدھر جائے یہ جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ روٹی کپڑا اور روزگار کا مسئلہ کمیونسٹ انقلاب کے بعد روس یا چین نے حل کیا یہ غلط ہے اسلام میں مملکت کا تصور ہی فلاحی ریاست کا ہے اب یہ اور بات ہے کہ ہم اپنی تاریخ بھول جائیں۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز کی بیوی کا نام فاطمہ تھا ابن جوزی نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ وہ گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کراپنے شوہر کی خدمت میں آئیں تودیکھا کہ جانماز پر بیٹھے ہیں دیکھا چہرہ آنسوئوں سے تر تھا تو وہ فوراً قریب گئیں اور پوچھا کوئی خاص بات فرمایا مسلمانوں کا امیر بن کر میں نے پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری اپنے سر لی ہے مملکت میں جتنے چھوٹے بڑے ہیں سب کی دیکھ بھال میرا فریضہ ہے میں اللہ کے حضور بیٹھا غریبوں ‘ مظلوموں ‘ معذوروں ‘ قیدیوں اور مسافروں کے بارے میں سوچ رہا تھا مختلف صوبوں میں بسنے والوں کے بارے میں غور کر رہا تھا ایسے افراد کے بارے میں سوچ رہا تھا جن کو اللہ نے پیٹ بھر کے اولاد دی ہے لیکن ان کی آمدنیاں کم ہیں گزر بسر ممکن نہیں فاطمہ قیامت میں اللہ تعالیٰ مجھ سے ان کے بارے میں سوال کرے گا اور جانتی ہو اللہ کے دربار میں ان مظلوموں کی طرف سے وکیل کون ہوگا؟۔وکیل ہونگے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔ پرسش کے موقعے پر میرا کیا حال ہو گا؟ بسی یہی سوچ کر رو رہا ہوں۔اسلام کہتا ہے کہ حکومت اللہ کی امانت ہے چاہے دس آدمیوں کی حکومت ہو کہ دس کروڑ کی مسند امام احمد میں ہے حضرت ابوامامہ کی روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ۔ کوئی شخص اگر دس آدمیوں پربھی والی مقرر ہو تو قیامت کے دن خدا کے سامنے اس طرح آئیگا کہ اس کا ہاتھ گردن سے بندھا ہوا ہو گا اس کی نیکیاں یا تو اسے نجات دلا دیں گی یا اس کے گناہ اسے ہلاک کردیں گے ۔حضرت عمر بن عبد العزیز کو اپنی ذمہ داریوں کا بڑا خیال تھا ابن عبد الحکم نے لکھا ہے انہوں نے عوام میں اعلان عام کر دیا تھا کہ تم میں سے جس کسی کی بھی ضرورت کا مجھے علم ہوگا میں انشاء اللہ حاکم وقت کی حیثیت سے اس کی ضرورت پوری کرنے کی ممکنہ کوشش کروں گا یہ ایک مسلمان حکمران کافریضہ ہے انہیں اس کی بڑی فکر رہتی تھی کہ عوام فقر وفاقے سے نجات پائیں اسی لئے مدینے سے آنے والوں سے انہوں نے فقیروں کے بارے میں پوچھا تھا۔مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں نظم و نسق کی کڑی نگرانی سے معاشی حالات ایسے اچھے ہو گئے تھے کہ لوگ زکواة کی رقم لے کر نکلتے اور زکواة کا مستحق کوئی نہ ملتا یہ اسلامی فلاحی مملکت کی ایک مثال ہے۔

مزید پڑھیں:  چھوٹے کام ، بڑا اثر!