جسٹس فائز عیسیٰ کاچشم کشا خط

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے احتجاج کے دوران سڑکوں کی بندش کے حوالے سے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راستے بند کرنے کے عمل کو شیطانی قرار دیا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے یہ ریمارکس ان کی جانب سے لکھے گئے کھلے خط میں سامنے آئے ہیںجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ انسانی تکریم اور
نقل و حرکت کی آزادی ہر شہری کے بنیادی حقوق ہیں، کسی بھی شہری کی طرح اپنے کام کی جگہ تک سہولت کے ساتھ پہنچنا اور اسی طرح گھر واپس جانا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔لوگوں کو سڑکوں پر پھنسے دیکھ کر افسوس ہوا کہ ایسا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہو رہا ہے جس کے آئین میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حکمرانی کا اقرار کیا جاتا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے کھلے خط میں لکھا کہ عدالت عظمی نے سڑکوں کی بندش سے بنیادی حقوق کی پامالی پر فیصلے دیے ہیں، جن میں واضح ہے کہ اجازت کے بغیر سڑکوں پر اجتماعات نہیں ہوسکتے۔انہوں نے کہا کہ دوسروں کے بنیادی حقوق متاثر کرکے آزادی اظہار کا حق استعمال نہیں کیا جاسکتا، سڑک کو غیر معینہ مدت تک جمع ہونے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا، لہذا جو مظاہرین لوگوں کے سڑکوں کے استعمال کرنے کے حق میں رکاوٹ ڈالیں ان کو قانون کے تحت جوابدہ ٹھہرانا لازمی ہے۔جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے خط میں صدر پاکستان کے لئے روٹ لگانے کے لئے سڑکوں کی بندش کے حوالے سے بھی اپنے خط میں اسی طرح کا تبصرہ کیا اگرچہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خط کا پس منظر حالیہ واقعات سے متعلق ہے جس سے قطع نظر سڑکوں اور راستوں کی بندش اور عوام کے لئے مشکلات کا باعث صرف کسی مخصوص سیاسی جماعت کے کارکنان ہی نہیں بنتے بلکہ سرکاری ملازمین کی انجمنوں کے احتجاج سے لے کر احتجاج کی کامیابی سڑک کی بندش اور عوام کا راستہ روک کر ہجوم میں اضافہ دکھانے کا رجحان من حیث المجموع پایا جاتا ہے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی مرکزی سڑک اور صوبائی اسمبلی کے ارد گرد احتجاج کا عمل ہی دیکھیں کہ آئے روز اس سے کس قدر لوگ متاثر ہوتے ہیں اس ضمن میں عدالت احکامات بھی دے چکی ہے مگر انتظامیہ اس کے باوجود جان بوجھ کر ناکامی ہی ثابت کرتی ہے مشکل امر یہ ہے کہ ہجوم کو ہٹانے اور منتشر کرنے کا فیصلہ بھی سیاسی اور مفاداتی ہوتا ہے انتظامیہ ہجوم کو روکنا اور منتشر کرنا چاہے تو باآسانی ایساکر لیتی ہے لیکن عموماً اس سے گریز کیا جاتا ہے جسٹس فائز عیسیٰ سینیارٹی کے لحاظ سے اگلے چیف جسٹس آف پاکستان بننے والے ہیں ان کے ریمارکس اور خیالات مختلف چیزوںاور حالات کے بارے میں فرسودہ نہیں بلکہ حوصلہ افزاء ہوتے ہیں اس تناظر میں توقع کی جا سکتی ہے کہ جب وہ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے تو بہت سارے معاملات میں اصلاحات کی ان سے توقع ہے ان کا خط چشم کشا اور فکر انگیز ہے جو حکومت اور انتظامیہ سبھی کے لئے مشعل راہ بھی ہے اسلامی شرعی اور اخلاقی و قانونی کسی طور بھی جب کسی فعل کا جواز نہیں تو اس کے باوجود ملک بھر میں اور ہر دور حکومت میں اس کا رواج کیوں ہے اس سوال کا حکمرانوں ‘ معاشرے اور عدالت سبھی سے سوال ہے مگر شاید ہی اس کا مثبت جواب کسی کے پاس ہو اور اصلاح کی توقع وابستہ کی جا سکے ۔ کم از کم اب تو فیصلہ کیا جائے اور آئندہ کے لئے تدارک ہو تو غنیمت ہو گی۔
اغواء کار کانسٹیبلز
پشاور پولیس کے ابابیل سکواڈ سمیت 4کانسٹیبلزمبینہ طور پر شہریوں کے اغوا میں ملوث نکلے۔ ملزمان نے 50 لاکھ روپے تاوان کے لئے آٹا ڈیلر کو ٹیکسی ڈرائیور سمیت اغواء کرلیا جبکہ مغویوں کو کئی گھنٹوں تک حبس بے جا میں رکھا گیا۔ حیات آباد پولیس نے انکوائری مکمل ہونے پرچاراہلکاروں کو حراست میں لے کر ان کے خلاف اغوا ء برائے تاوان کے دفعہ کے تحت مقدمہ درج کر لیا جن کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا گیا ہے ۔اس سے بڑا لمیہ کیا ہو گا کہ محافظین قانون ہی لٹیرے بن جائیں اس طرح کا واقعہ اس امر پردال ہے کہ پولیس میں کالی بھیڑوں کی کمی نہیں سڑکوں اور ناکوں پر تو عوام کی جیب پر ہاتھ صاف کرنا تو معمول کی بات ہے جرائم پیشہ عناصر سے صرف نظر اور منشیات فروشی و قحبہ خانوں کی سرپرستی بھی کوئی پوشیدہ امر نہیں مگراغواء برائے تاوان کی بڑی واردات چشم کشا ہے معلوم نہیں اس طرح کے کتنے واقعات سامنے نہ آئے ہوں بہرحال محولہ واقعہ کا سامنے آنا پوری پولیس فورس کے لئے کلنک کا ٹیکہ ہے مقام اطمینان یہ ہے کہ ملزموں کی نشاندہی کے بعد ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے کارروائی شروع کردی گئی ہے ان کے خلاف قانونی کاررائی کے ساتھ ساتھ سخت محکمانہ کارروائی کی بھی ضرورت ہے جب تک اس طرح کے عناصر سے پولیس فورس کو پاک نہیں کیا جاتا اس وقت تک پولیس فورس عوام کی محافظ قرار نہیں پاسکتی۔
افتتاح کا جھگڑا
پشاور کی نمک منڈی میں پارکنگ پلازہ کے منصوبے کا افتتاح کریڈٹ لینے کا شکار ہوگیااور اس منصوبے کا دو مرتبہ افتتاح کیا گیا فیتہ کاٹنے کا شوق اور کریڈٹ لینے کی دوڑ نئی بات نہیں البتہ اس طرح کی نوبت کم ہی آتی ہے حالانکہ ہر دو افتتاح کنندگان کے جماعتی فنڈ یا ذاتی سرمائے سے یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوا بلکہ پیسہ عوام کا اور سرکاری خزانے سے خرچ ہوا ہے بنا بریں اس طرح کے منصوبوں کا افتتاح سیاسی و حکومتی عناصر سے نہیں بلکہ کسی نمایاں خدمت انجام دینے والے شہری سے کرانے کی ضرورت ہے تختی لگانے اور افتتاح کرنے کے شوقین افراد کم ازکم اگر سرکاری فنڈ کے درست استعمال اور کام کے معیار یقینی بنانے کی زحمت کرنے کے بعد ہی اگر اس طرح ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں تواور بات ہو گی۔

مزید پڑھیں:  ہے مکرر لب ساتھی پہ صلا میرے بعد