عدل اور ترقی کا باہمی تعلق

عظیم فلسفی کفیوشس سے پوچھا گیا کہ اگر ایک قوم کے پاس تین چیزیں انصاف، معیشت اور دفاع ہوں اور کسی مجبوری کی وجہ سے کسی چیز کو ترک کرنا پڑے تو کس چیز کو ترک کیا جائے؟ کنفیوشس نے جواب دیا: دفاع کو ترک کر دو۔ سوال کرنے والے نے پھر پوچھا: اگر باقی ماندہ چیزوں انصاف اور معیشت میں سے ایک کو ترک کرنا پڑے تو کیا، کیا جائے؟کنفیوشس نے جواب دیا: معیشت کو چھوڑ دو۔ اس پر سوال کرنے والے نے حیرت سے کہا: معیشت اور دفاع کو ترک کیا تو قوم بھوکوں مر جائے گی اور دشمن حملہ کر دیں گے؟ تب کنفیوشس نے جواب دیا: نہیں ایسا نہیں ہو گا بلکہ ایسا ہو گا کہ انصاف کی وجہ سے اس قوم کو اپنی حکومت پر اعتماد ہو گا اور لوگ معیشت اور دفاع کا حل اس طرح کریں گے کہ پیٹ پر پتھر باندھ کر دشمن کا راستہ روک لیں گے۔ اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن فضائیہ کے طیارے مسلسل بمباری کرکے لندن میں تباہی مچا رہے تھے ۔ بہت زیادہ جانی نقصان ہو رہا تھا اور معیشت تباہ ہو رہی تھی۔ ہر شخص یہ سوال کر رہا تھا کہ اس ملک کا کیا ہو گا ؟ افراتفری اور مایوسی کے ان حالات میں برطانوی وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا عدالتیں کام کر رہی ہیں ؟ انہیں بتایا گیا کہ عدالتیں معمول کے مطابق فیصلے کر رہی ہیں اور لوگوں کو انصاف مہیا کر رہی ہیں ۔ چرچل نے اس پر خدا کا شکر ادا کیا اور کہا کہ اب کوئی مسئلہ نہیں ہو گا ۔ہر طرف تباہی کے باوجود برطانوی وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل اس وجہ سے مایوس نہیں ہوئے کہ عدالتیں معمول کے مطابق کام کر رہی تھیں بلکہ لوگوں کو انصاف مل رہا تھا ، جس نے ریاست پر لوگوں کا اعتماد قائم رکھا ہوا تھا ۔
پاکستان ترقی اور ٹیکنالوجی میں دنیا سے بہت پیچھے ہے، ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں کو جو سہولیات اور حقوق حاصل ہیں ہمارے شہریوں کو وہ سہولیات میسر نہیں، یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ترقی یافتہ ممالک اور ہمارے معیار زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہمارے ایک دوست برسوں سے امریکہ میں مقیم ہیں انہوں نے بتایا کہ وہاں پر دس بیس برس قبل جو کمپیوٹر متروک کر دئیے گئے تھے، وہ آج بھی پاکستان میں مقبول ہیں اور پروفیشنل استعمال کے لئے کارگر سمجھے جاتے ہیں۔ وہاں پر گاڑیوں کے جو ماڈل عام لوگوں کے استعمال میں ہیں وہ یہاں کے امرا کے پاس بھی دیکھنے کو نہیں ملتے ہیں۔
معیار زندگی میں واضح تفاوت کو عوام برداشت کر رہے ہیں کیونکہ ارباب اختیار ڈیلیور کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں لیکن ایک چیز ایسی ہے جو ہماری ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور وہ ہے عدل کا کمزور نظام۔ کوئی بھی معاشرہ اور ملک اس وقت ہی حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ کہلا سکتا ہے جب وہاں عدل و انصاف کا بول بالا ہوتا ہے۔ عوام کی جان و مال اور عزت محفوظ ہوتی ہے۔ جہاں عوام کو حق بات کہنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے، وہ بلا خوف و خطر آزادی سے زندگی گزار تے ہیں۔ عوام کو یہ یقین ہو کہ کوئی بھی ان پر ظلم کرے گا تو اس سے اس کا حساب لیا جائے گا۔ قانون پر عمل کرتے ہوئے مجرموں کو سزا دی جائے گی۔ عدلیہ سے انصاف ملے گا۔ پولس ایمانداری کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دے گی۔ اس کے برعکس اگر معاشرے میں نا انصافی کا دور دورہ ہو گا ، عدالتوں میں انصاف نہیں ہو گا ، ججز انصاف کرنے کے بجائے فیصلہ سنانے لگیں گے ،پولس اور انتظامیہ اقلیتوں اور کمزوروں کو بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کی کوشش کرے گی، اقلیت اور اکثریت کے درمیان امتیاز برتا جائے گا تو معاشرہ تمام برائیوں کا گڑھ بن جائے گا۔ ہر طرف انارکی پھیل جائے گی ، غریبوں اور کمزوروں کا جینا مشکل ہو جائے گا ، سماج افراتفری اور تباہی کا شکار ہو جائے گا۔ کسی کی جان و مال اور عزت محفوظ نہیں ہو گی۔ معاشرہ میں امن و سکون کا مکمل طور پر فقدان ہو جائے گا۔ کامیابی معاشرہ کی ایک خوبی اور شناخت دولت کی برابر تقسیم اور اقتصادی بنیاد پر برابر ی ہوتی ہے یعنی اقتصادی نظام اس طرح تشکیل دیا جائے کہ پوری معیشت پر کسی ایک شخص کا کنٹرول نہ رہے، ہر ایک کو روزگار فراہم ہو ، ملازمت ملے ، تجارت کرنے مواقع میسر ہوں ، ایسا نہ ہو کہ چند لوگ ہی پوری دولت پر قابض ہو جائیں اور بقیہ لوگ ان کے محتاج بن جائیں اور پھر جیسے چاہے عوام کو مجبور کیا جائے، اقتصادی مساوات بنیادی ضرورت ہے، انصاف کے بغیر کسی بھی قوم کیلئے خوشحالی، امن و سلامتی کے قیام، جہالت و غربت کے خاتمے کے اہداف کا حصول ممکن نہیں ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جس نے انصاف کئے بغیر ترقی حاصل کی ہو۔ خوشحالی، ترقی، ہم آہنگی، امن وآشتی، غربت کے خاتمہ ، علم کے فروغ اور دنیا کے طاقتور ممالک کی صفوں میں شامل ہونے کیلئے ضروری ہے کہ وہاں ہر ایک کے ساتھ انصاف کیا جائے، مساوات کیا جائے، عدل و انصاف کو ترجیح دی جائے۔ پاکستان دنیا کی چھٹی ایٹمی قوت ہے، اس اعتبار سے ہم دنیا کے ان نو ممالک میں شامل ہیں جو ایٹمی قوت کے حامل ہیں، دوسری طرف جی ڈی پی کے حساب سے ترقی میں ہمارا شمار 190 ممالک میں 177 ویں نمبر ہوتا ہے، یعنی ہم بیس پسماندہ ممالک شامل ہیں، یہ بھی کسی حد تک قابل قبول تھا کہ ہم ترقی میں دنیا کا مقابلہ نہیں کر پائے ہیں مگر عدل میں آخری نمبروں پر ہونے کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم عدل کو اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں ہیں، جب تک عدل کو اہمیت نہیں دیں گے ہر شعبے میں ہم ناکام رہیں گے۔

مزید پڑھیں:  ہے مکرر لب ساتھی پہ صلا میرے بعد