پاکستان دو انتہائوں کے درمیان

اس میں شک نہیں کہ قیام پاکستان میں اسلام ایک مضبوط و مئوثر جذبہ محرک کے طور پر کارفرمارہا ۔مسلمان اور ہندو اور دیگر غیر مسلم اقلیتیں انگریز راج میں ڈیڑھ سو برس اور اس سے پہلے مسلمانوں کی حکومتوں میں تقریباً آٹھ سو برس اکھٹے رہے۔لیکن انگریزوں کے آخری دور یعنی جنگ عظیم دوم کے بعد کہ برطانوی راج مائل بہ اضمحلال تھی۔راشریہ سیونگ سنگھ جیسی انہتاپسند و متعصب ہندو تنظیموں نے مذہب و تہذیب کی بنیاد پر پر پرزے نکالنے شروع کئے۔ تو وہ مسلم لیگ جو انگزیزی حکومت کے ساتھ روابط استوار رکھنے اور مسلمانوں کے لئے تھوڑے بہت حقوق حاصل کرنے کے لئے قائم کر گئی تھی۔ مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے قیام کے مطالبے پر اصرار کرنے لگی۔ تو مسلم لیگ کے وہ زعماء جو اپنی ساخت و پرداخت میں لبرل اور انگر یزی تہذیب یافتہ تھے۔ جیسے سر آغاخان وغیرہ عوام کواپنے ساتھ ملائے رکھنے کے لئے اسلام کی تعلیمات پر مبنی نعرے لگانے اور تقاریر کرنے پر مجبورہونے لگے۔آگے جاکر جب تحریک پاکستان زور پکڑ گئی تو ایک مشہور نعرہ یہ بھی لگا کہ ”مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ”اور آخر میں تو وہ مشہور سلوگن جو آج بھی مسلمانان پاکستان کی تحریروں اور تقریروں میں زندہ ہے لگا، کہ پاکستان کا مطلب کیا ، لاالہ الا اللہ۔ بعض حضرات مطلب کے بعد سوالیہ نشان بھی ڈال لیتے ہیں … چونکہ تحریک پاکستان میں مذہب ایک اہم جذبہ و قوةِ محرکہ کی حیثیت اختیار کر چکا تھا، اسی سے مدد لیتے ہوئے قیام پاکستان کے ہمارے ہاں کی مذہبی جماعتوں نے لنگر لنگوٹ کس کر یہاں اسلام و شریعت کے نفاذ کے لیے تحریکیں چلانا شروع کر لیں۔ اس سلسلے میں سب سے ہم معیاری اور سنجیدہ کوششیں جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے ہوئیں۔ دوسرے نمبر پر جمعیت علمائے اسلام اور دیگر چھوٹی موٹی مذہبی جماعتیں شامل تھیں، لیکن قیادت ان دو جماعتوں کے ہاتھ میں تھی۔ ان مذہبی جماعتوں کی کوششوں سے پاکستان کے اکتیس علماء نے متفقہ طور پر بائیس دستوری نکات پیش کیے جو پاکستان کا مطلب کیا ؟ کی قابلِ عمل تشریح تھی۔ لیکن بُرا ہو سیاست کا اور پاکستان کے خلاف سازش کرنے والوں کا ، کہ وہ خواب آج تک شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ پاکستان کے مستند علماء کا منطق و استدلال پر مبنی یہ بہت ہی معتدل مطالبہ تھا، لیکن افسوس کہ اس پر بوجوہ خاطرہ توجہ نہ دی گئی۔ یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ پاکستان کا مطلب کیا ؟ کا نعرہ کیسے وجود میں آیا
اس کے بارے میں بعد بڑے بڑے سیاستدانوں نے قولاً و عملاً بڑی چھلانگیں لگائیں لیکن بابائے قوم محمد علی جناح نے جب مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی تب سے ان کے پاکستان میں اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے حوالے سے مؤقف میں اول تا آخر سرِ مو فرق نہ آیا، شہید ملت لیاقت علی خان کے قرارداد مقاصد بھی اعتدال پر مبنی اور اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے، لیکن شومئی قسمت کہ برسوں یہ قرارداد آئین پاکستان کا حصہ نہ بن سکا، آئین کا حصہ بننے کے بعد آج بھی معمول بہ ہونے کا منتظر ہے، بابائے قوم اور بائیس نکات و قرارداد مقاصد تے روگردانی بعد حکومتی اور معاشرتی و سماجی سطح پر دو ایسے انتہا پسندانہ نظریہ ہائے عمل وجود میں آئے جو ایک سو اسی ڈگری کے ساتھ متقابل کھڑے ہوئے۔
اس کے نتیجے میں مذہبی طبقات اور لبرل و سیکولر جماعتوں اور افراد کے درمیان نظریات کی سطح پر سخت کشمکش برپا ہوگئی۔1970کے عشرے میں جماعت اسلامی اور پی پی کے سو شلزم کے منشور کے درمیان ملکی سطح پر پوری قوم ہیجان میں مبتلا ہو گئی، اس کے بیچ میں قوم پرست جماعتیں بھی موقع بہ موقع اپنی ڈفلیاں بجاتی رہیں، اسی انتہا پسندی کا نتیجہ بھٹو صاحب کی پھانسی اور ضیاالحق کے مارشل لاء کی صورت میں سامنے آیا۔ اس کے بعد بھٹو ازم اور ضیاء ازم کے درمیان قوم ہلکان ہوتے ہوئے شریف برادران،آصف علی زرداری کو پاکستان کے سڑکوں پر گھسیٹتے رہے، یہاں تک کمانڈو صاحب نے نواز شریف کو جہاز کی سیٹ کے ساتھ ہتھکڑی میں باندھ کر سعودی عرب بھجوایا، اس کے درمیان میں مشرف مکے لہراتے رہے یہاں تک زرداری نے جمہوریت بہترین انتقام ہے کے تحت مشرف کو رلاتے ہوئے زندگی کے آخری ایام دبئی میں گزارنے پر مجبور کر گئے اور آج بھی وہاں دیدہ عبرت نگاہ ہیں۔
ان بھاری بھر کم برسوں کی اتھل پتھل کے بعد آج سے سات آٹھ ماہ قبل کے حالات نے پاکستان قوم کو دو واضح حصوں میں بانٹ کر رکھ دیا ہے،ایک طرف پی ٹی آئی اور عمران خان کا حقیقی آزاد مارچ ہے اور دوسری طرف پی ڈی ایم کی پچہتر وزراء اور مشیران پر مشتمل بے مثال حکومت ہے جس کی ڈی فیکٹودارالحکومت لندن ہے، امپورٹڈ حکومت کی نئی اصطلاح اور بیس پچیس بے محکمہ وزراء کی حکومت کو پی ٹی آئی کس صورت تسلیم کرنے تیار نہیں،الزامات،بہتانات، قتل و متاقلہ اور ایک دوسرے پر چوری اور ڈاکو کے الزام کے ساتھ قوم کو ایسی گو مگو کی حالت پرلے آئے ہیں کہ لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں، پینا ڈول کی گولی اور سردرد و بخار کی عام دوائیاں عوام کی رسائی سے باہر ہو رہی ہیں، تاریخ میں پہلی دفعہ پاک افواج کی پاکدامنی پر بھی تر دامنی کے داغ لگ گئے ہیں، ہے کوئی اجل رشید جو قوم کو ان انتہائوں سے نکال باہر کرے؟

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں سے ہوشیار