اسلامی بینکنگ سسٹم نافذ کرنے کا حکومتی عزم

حکومت نے سود کے خلاف اپیل واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے اس طرح شرعی عدالت کا سود کے خلاف فیصلہ تسلیم کرکے نظام مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم اور اسلامی بینکنگ سسٹم تیزی سے نافذ کرنے کی کاوشیں کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا کہ اس معاملے میں سٹیٹ بینک کے گورنر کے ساتھ بھی مشاورت کی گئی ہے حتمی منظوری وزیراعظم شہباز شریف دیں گے انہوں نے یہ بھی کہا کہ فیصلہ کرنے کا معیار صرف قرآن و سنت ہے اسلامی نظام کے نفاذ کے راستے میں کئی چیلنج ہیں 75 سال سے جاری نظام کو یکدم تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے ساری باتیں درست کہی ہیں کہ نظام کو یکدم بدلنا ممکن نہیں ہے۔ اس راہ میں کئی چیلنجز بھی ہیں، یہ بھی درست ہے ہم نے 1956ئ، 1962ء اور پھر 1973ء میں دساتیر کے ذریعے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ یہ ملک قرآن و سنت کے مطابق چلایا جائے گا۔ ہم نے یہی بات قیام پاکستان سے پہلے بھی کہی تھی۔ قراردادِ پاکستان ہو یا قرارداد مقاصد، پاکستان کے تینوں دساتیر ہوں یا ملکی اجتمائی دانش، ہر جگہ قرآن و سنت کے مطابق نظم ریاست و سیاست چلانے کے عزم کا اظہار ہوتا رہا ہے لیکن ہمارے حکمران و مقتدر طبقات اپنے چھوٹے چھوٹے اور حقیر مفادات کی خاطر اس سے روح گردانی کرتے رہے ہیں۔ ہمارا مغرب زدہ طبقہ، جو تعداد میں قلیل لیکن اختیارات میں قوی ہے، قوم کے حقیقی آدرشوں کی بار آوری کی راہ میں ہمیشہ مزاحم رہا ہے کیونکہ اسلامی نظام ان کے وارے میں نہیں ہے ان کے بیرون ملک آقاؤں کو پسند نہیں اس لئے وہ اسے یہاں پاکستان میں نافذ نہیں ہونے دیتے، یہ تماشا سالوں سے جاری ہے۔ آئین پاکستان میں درج ہونے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا، ویسے بھی ہم جس مغربی عالمی نظام زر کا حصہ ہیں ہماری معیشت جس عالمی نظام تجارت سے جڑی ہوئی ہے اس میں سود رگوں میں دوڑتے ہوئے خون اور جسم میں روح کی مانند ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں سود بنیادی ڈھانچے اور روح کی حیثیت رکھتا ہے سود اس نظام کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔ اس کی ساری قوت اس سود کے باعث ہے ہم کیونکہ اس نظام سے جڑے ہوئے ہیں ہمارا معاشی و معاشرتی نظام، مالی و زری نظام، اسی عالمی نظام سے پیوست ہے ہماری صنعت و حرفت ہمارا عالمی لین دین اسی عالمی نظام میں پیوست ہے اس لئے اسحاق ڈار کا یہ کہنا کہ تبدیلی کی راہ میں رکاوٹیں ہیں بالکل درست اور قابل فہم نظر آتا ہے لیکن آئین میں درج کئی ایسی باتیں بھی ہیں جن پر عملدرآمد کی راہ میں کوئی عالمی یا کوئی اور نظام متراجم نہیں ہے ان پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا جیسا کہ اردو کو قومی زبان کا درجہ دینا اس حوالے سے سپریم کورٹ احکامات بھی جاری کر چکی ہے لیکن معاملات جوں کے توں ہیں۔ اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے میں تو ہمیں کسی عالمی نظام کی مزاحمت کا سامنا تو نہیں ہے۔ پھر اسے کیوں نہیں لاگو کیا جا رہا ہے؟ آئینی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کرنے کا مسئلہ بھی ہے اسے پھر بھی حل نہیں کیا جا رہا ہے یہ آئین سے روگردانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
دنیا میں ہم قانون شکن اور جرائم سے متعلق جانے اور پہچانے جاتے ہیں مغربی ممالک کا تو کیا کہنا ہے ہم سعودی عرب، دبئی، قطر، کویت اور ایسے ہی مسلم ممالک میں بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھے جاتے ہیں حال ہی میں ہمارے وزیراعظم کے دوست عرب ملک کے سربراہ کی طرف سے تحفے میں دی جانے والی گھڑی کی مارکیٹ میں فروخت کے چرچے سے ہماری جو سبکی ہوئی ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری اشرافیہ کس قدر پست فکر و عمل کی حامل ہے اقوام عالم میں ہم اچھی نظروں سے دیکھے نہیں جاتے ہیں ہمیں دھوکے باز سمجھا جاتا ہے حد تو یہ ہے کہ ہمارے سرکاری اداروں کی طرف سے مہیا کردہ اعداد و شمار کو بھی من و عن تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف نے تو سیکرٹریٹ بلاک میں ایک فلور پر اپنا دفتر قائم کر رکھا ہے جہاں بیٹھ کر وہ اپنے انداز میں، اپنے طریقے سے اعداد و شمار اکٹھے کرتے ہیں پھر انہی کی بنیاد پر جمع تفریق کرکے ہماری مالی حیثیت کا تعین کرکے ہمارے ساتھ معاملات طے کرتے ہیں۔ ہماری طویل عرصے سے جاری نااہلیاں آج ہمیں اس مقام پر لے آئی ہیں کہ ہم ناکام ریاست کی طرف بڑھتے بلکہ لڑھکتے نظر آ رہے ہیں ہماری معیشت مکمل طور پر عالمی ساہوکاروں کے شکنجے میں جکڑی جا چکی ہے۔ ہم عوامی فلاح و بہبود کے چھوٹے سے چھوٹے فیصلے کرنے کے لئے بھی آئی ایم ایف کی اجازت کے محتاج ہو چکے ہیں۔ اشیاء ضروریہ کی قیمتیں حقیقتاً عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں قدر زر میں شدید پستی دیکھی جا سکتی ہے سب سے اہم بات، عوام کی اکثریت اس ملک کے حال اور مستقبل سے قطعا مایوس ہو چکی ہے۔ ہمارا قابل فخر دفاع، ہمارا ایٹمی پروگرام بھی ہمیں فکری و عملی تحفظ دینے میں ناکام ہو چلا ہے۔ اس ماحول میں اسلامی نظام زر کے قیام کی باتیں لایعنی ہیں سود بارے مشرقی عدالت کا فیصلہ مان لینے سے زمینی حقائق میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں ہو گی۔

مزید پڑھیں:  خلاف روایت عمل