منی بجٹ میں مہنگائی کے خدشات

پاکستان میں مالیاتی خسارے کے تناظر میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مالیاتی فرق کو پُر کرنے کیلئے مزید اقدامات اٹھائے، منی بجٹ پیش کرنے کے بعد مذاکرات کے لئے آئے۔ آئی ایم ایف نے کسان پیکج پر بھی اعتراض اٹھایا ہے کہ مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے مالی وسائل کہاں سے آئیں گے۔
پاکستان نے مالی خسارے سے نکلنے کیلئے آئی ایم ایف سے مالیاتی پیکج حاصل کیا، پیکج کے حصول کیلئے آئی ایم ایف کی طرف سے کڑی شرائط عائد کی گئیں، بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا، جس کا اثر براہ راست خور و نوش اشیاء کی قیمتوں پر بھی پڑا، جس کے باعث مہنگائی کی شرح میں ہوشربا حد تک اضافہ ہو گیا، اسی دوران سیلاب کی آفت کی وجہ سے ملک کا ایک تہائی حصہ متاثر ہوا، ساڑھے تین کروڑ افراد سیلاب سے متاثر ہوئے جبکہ ہزاروں کلو میٹر پر مشتمل انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا، ایسی صورتحال میں پاکستان کو توقع تھی کہ مشکل کی اس گھڑی میں عالمی برادری ہمیں تنہا نہیں چھوڑے گی، سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتیرش نے سیلاب کے بعد دورہ پاکستان میں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے پاکستان کیلئے فنڈز کی اپیل بھی کی تھی مگر توقع سے بہت کم فنڈز مل سکے، جس کے بعد پاکستان کے مالیاتی خسارے میں اضافہ ہوتا چلا گیا، دریں حالات میں توقع تھی کہ آئی ایم ایف اپنی سخت شرائط میں نرمی کا مظاہرہ کرے گا، قرضوں کو معاف نہ بھی کیا گیا تو کم از کم مؤخر ضرور کر دیا جائے گا، لیکن ہمارے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں، تعاون کے برعکس آئی ایم ایف ریکوری کیلئے پاکستان پر دبائو ڈال رہا ہے، منی بجٹ بھی اسی دبائو کا حصہ ہے، اگر حکومت آئی ایم ایف کی ایماء پر مہنگائی میں اضافہ کرتی ہے اور جن مدات میں سبسڈی دی جا رہی ہے اسے ختم کرتی ہے تو عوام اس کے متحمل نہیں ہو سکیں گے، اس حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں کوئی درمیانی راہ نکالنی ہوگی، آئی ایم ایف حکام کو پاکستان کی موجودہ صورتحال اور سیلاب کی تباہ کاری بارے بتانا ہو گا اور ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کرنا ہو گا جو مہنگائی کا باعث بنتا ہو۔
ترقیاتی سکیموں میں مالی بے ضابطگیاں
کابینہ ڈویژن کے ارکان اسمبلی کی ترقیاتی سکیموں کے پروگرام پائیدار ترقیاتی اہداف کے آڈٹ کے دوران کروڑوں روپے کی مالی بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے، یہ انکشاف آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ برائے2020-21ء میں کیا گیا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ارکان قومی و صوبائی اسملبی کو ترقیاتی فنڈز جاری کئے جانے کا غلط رحجان پایا جاتا ہے جو عموماً بے ضابطگیوں کی نذر ہو جاتے ہیں، حالانکہ دنیا کے دیگر ملکوں میں ایسا ہرگز نہیں ہوتا، وہاں ترقیاتی فنڈز متعلقہ اداروں اور محکموں کے ذریعے خرچ کئے جاتے ہیں تاکہ ان کا صحیح استعمال یقینی بنایا جا سکے، اصولی طور پر تو پاکستان میں بھی ارکان اسمبلی کسی طور پر ترقیاتی کام کروانے یا فنڈز لینے کے مجاز نہیں ہیں بلکہ یہ ذمہ داری بلدیاتی اداروں کی ہوتی ہے، اب یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ بلدیاتی الیکشن وقت پر نہیںکرائے جاتے، بلدیاتی ادارے موجود نہ ہونے پر ترقیاتی فنڈز سیاسی بنیادوں پر ارکان اسمبلی کو جاری کئے جاتے ہیں جو پہلے تو 100 فیصد استعمال ہی نہیں ہوتے اور جتنے ہوتے بھی ہیں، ان کا استعمال سیاسی بنیادوں پر ہی ہوتا ہے، ارکان اسمبلی فنڈز کے استعمال میں اقرباء پروری کے ساتھ ساتھ اپنے ووٹرز کو بھی اہمیت دیتے ہیں، جس علاقے میں اکثریت ان کے مخالفین کی ہو وہاں ترقیاتی کام نہیں کروائے جاتے، اگر دیکھا جائے تو آج بھی بہت سے ایسے دیہی علاقے موجود ہیں جو سڑک، پانی یا بجلی جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں بلدیاتی نظام کو مضبوط بنایا جائے، ترقیاتی فنڈز ارکان اسمبلی کی بجائے بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے خرچ کئے جائیں تاکہ وہ بے ضابطگیوں کی نذر نہ ہوں اور بلاتفریق ترقیاتی کام بھی ہو سکے۔
ایجوکیشن اتھارٹی کے ملازمین سے مذاکرات ضروری
ایجوکیشن مانیٹرنگ اتھارٹی کے ملازمین کی 15 ستمبر سے شروع ہونے والی ہڑتال اب دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، انہوں نے مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں یکم دسمبر سے قلم چھوڑ ہڑتال کی دھمکی بھی دے رکھی ہے، اگر ملازمین قلم چھوڑ ہڑتال کر دیتے ہیں تو صوبائی سکولوں کے سالانہ اعداد و شمار کا سروے بھی نہیں ہو سکے گا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ایجوکیشن مانیٹرنگ اتھارٹی کے ملازمین کی ہڑتال کو تقریباً ایک ماہ ہو چکا ہے لیکن ابھی تک حکومت کی طرف سے ان کے ساتھ مذاکرات کرنے یا انہیں کوئی یقین دہانی کرانے کی زحمت نہیں کی گئی ہے، ایجوکیشن اتھارٹی، جو صوبے میں سکولوں کی کارکردگی اور معیار تعلیم کی نگرانی کا ذمہ دار ادارہ ہے، اس کی اہمیت کے پیش نظر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت ملازمین کی ہڑتال ختم کرانے کے لیے فوری ان سے مذاکرات کرتی تاکہ صوبے کے تعلیمی امور پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو لیکن اس ضمن میں ابھی تک حکومت کی طرف سے جس بے حسی مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہ افسوسناک ہے، ملازمین نے ہڑتال کے پہلے مرحلے میں بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھنے پر اکتفا کیا تھا لیکن اب دوسرے مرحلے میں انہوں نے ان تمام اضافی ذمہ داریوں کا بائیکاٹ کردیا ہے جس کے لئے کوئی ادائیگی نہیں کی جاتی، ملازمین کی ہڑتال سے دفتری امور بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہونے کے باعث یہ ملازمین اپنی معمول کے فرائض بھی احسن طریقے سے انجام دینے سے قاصر ہیں۔
اب اگر یکم ستمبر تک ملازمین قلم چھوڑ ہڑتال کر دیتے ہیں تو اس سے ایجوکیشن اتھارٹی عملاً غیر فعال ہو کر رہ جائے گی، دفتری امور ٹھپ ہونے سے فائلوں کی منظوری میں تاخیر ہوگی اور وہ سرد خانوں کی نذر ہو جائیں گی جس کا منفی اثر یقیناً پورے تعلیمی نظام پر پڑے گا، اس لئے متعلقہ حکام کو چاہئے کہ وہ مزید تاخیر کئے بغیر احتجاجی ملازمین سے مذاکرات کریں اور ان کے جائز مطالبات پورے کئے جائیں تاکہ اتھارٹی مؤثر اور فعال انداز میں کام جاری رکھ سکے اور صوبے میں تعلیمی نظام اور معیار خاص طور پر سکولوں کی کارکردگی میں بہتری لانے کی کوششوں کو کوئی زک نہ پہنچے۔

مزید پڑھیں:  بے جے پی کی''کیموفلاج''حکمت عملی