سیاسی کشیدگی خاتمے کیلئے صدر مملکت کی کوششیں

پاکستان کی 75 سالہ تاریخ سیاسی کشیدگی سے عبارت ہے، سیاسی محاذ آرائی عدم استحکام کا باعث بنتی ہے اور ملک معاشی طور پر پیچھے چلا جاتا ہے، اہل سیاست مگر اس بات کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ مارچ 2022ء میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی جو کامیاب بھی ہوئی، دیکھا جائے تو یہ آئینی اقدام تھا، تاہم چیئرمین تحریک انصاف نے اسے بیرونی سازش قرار دے کر احتجاجی مہم شروع کر دی، تب سے لے کر وہ سراپا احتجاج ہیں جس کے باعث سیاسی عدم استحکام پیدا ہو گیا ہے، سیلاب کی تباہی کے بعد توقع تھی کہ ملک و قوم کے مفاد کی خاطر عمران خان کچھ عرصہ کیلئے سیاسی سرگرمیاں ترک کر دیں گے مگر بدقسمتی سے ہم اس مشکل گھڑی میں بھی یکجا نہ ہو سکے، اس وقت تحریک انصاف پورے ملک سے آزادی مارچ کا آغاز کر چکی ہے، جس سے حالات مزید خراب ہوتے دکھائی دیتے ہیں، حالات کی نزاکت کے پیش نظر ضروری تھا کہ اقتدار کے تمام شراکت دار مل بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اسی سوچ کے تحت کوشش کی تھی تاکہ سیاسی کشیدگی کو کم کیا جا سکے، تاہم مایوس کن بات یہ ہے کہ اب صدر مملکت نے کہا ہے کہ مذاکرات کیلئے کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔ صدر مملکت نے ملک کی سیاسی صورت حال پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورت حال میں جو بھی ہوگا وہ آئین کے مطابق ہو گا، انہوں نے کہا کہ جمہوری اداروں کے استحکام کے لیے بات چیت کرنی چاہیے، فیڈریشن سے متعلق میری کوشش ہے کہ یکجہتی ہو اور معاملات خراب نہ ہوں۔ صدر مملکت نے اعتراف کیا کہ نیب کے قانون کا سیاسی استعمال غلط تھا، جمہوریت اداروں کی وجہ سے ہی چلتی ہے، خوشی ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت چل رہی ہے۔ صدر مملکت نے سیاسی کشیدگی ختم کرنے کے لیے کوشش کی، ان کی کوشش دو حوالوں سے معنیٰ رکھتی ہے، ایک یہ کہ ان کا منصب غیرجانبداری کا تقاضا کرتا ہے، دوسری وجہ ان کی سیاسی وابستگی تحریک انصاف سے ہے، وہ عمران خان کو اپنا لیڈر سمجھتے ہیں، چونکہ عمران خان کو اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں سے اختلاف ہے اس لئے امید تھی کہ صدر مملکت عمران خان کے ساتھ بات کر کے ملک میں سیاسی مفاہمت کی راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ المیے کی بات یہ ہے کہ جس طرح صدر مملکت نے سیاسی کشیدگی کو ختم کرنے کی کوشش کی، اقتدار کے شراکت داروں کی طرف سے ویسی کوشش دکھائی نہیں دی۔ عمران خان کی مخالف سیاسی جماعتیں اور سیاسی حریف اس امر کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ چیئرمین تحریک انصاف جب کسی کے ساتھ مل بیٹھنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں تو بات چیت کس کے ساتھ کی جائے؟ دیکھا جائے تو سیاسی جماعتوں کا مؤقف غلط نہیں ہے کیونکہ عمران خان کا سخت رویہ مذاکرات کی راہ میں آڑے آجاتا ہے حالانکہ اہل سیاست اختلاف کے باوجود مذاکرات کے راستے بند نہیں کرتے۔ اہل سیاست کا باہم بیٹھنے سے انکار نہ صرف ان کی ساکھ کو متاثر کرتا ہے بلکہ سیاسی عدم استحکام پیدا ہونے کی صورت میں ملک کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔ ایک ویژنری لیڈر وقتی مفاد کی بجائے مستقبل کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کرتا ہے، اس کی نظر اقتدار کے حصول سے زیادہ پارٹی کو عوام میں مقبول بنانے اور ووٹ بینک میں اضافہ کرنے پر مرکوز ہوتی ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ ملکی مفاد مقدم ہوتا ہے، اس ضمن میں جب ہم پاکستان کی سیاسی قیادت کو پرکھتے ہیں تو ہمیں ملکی مفاد کی بجائے سیاسی مفاد مقدم نظر آتا ہے، اس سلسلے میں کسی ایک سیاسی جماعت یا سیاسی قائد کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ کچھ روز قبل چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ ایوان میں جا کر کردار ادا کریں کیونکہ عوامی نمائندوں کو متعلقہ حلقے کے عوام نے اس مقصد کے لیے ووٹ نہیں دیئے تھے کہ وہ سراپا احتجاج رہیں۔ پاکستان میں رائج جمہوریت اور دیگر جمہوری ممالک کا سرسری جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ترقی کی اصل وجہ سیاسی استحکام اور اداروں کا اپنی آئینی حدود کے اندر رہ کر کام کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں پر جمہوریت ثمر آور ہے جب کہ ہمارے ہاں آج تک سیاسی استحکام پیدا ہو سکا اور نہ ہی ادارے اپنی آئینی حدود تک محدود رہ سکے۔ جمہوریت کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ان حقیقی جمہوری اقدار کو ترجیح دی جائے جو جمہوری معاشروں میں رائج ہیں۔

مزید پڑھیں:  چھوٹے کام ، بڑا اثر!