پھانسی اور معزولی کے بعد

پیپلز پارٹی کا قیام طویل مارشل لا، قومی سطح پر سیاسی فکر و عمل کے فقدان اور مسلم لیگ کی بے شعور قیادت کے مرہون ِ منت ہے۔ یہ جماعت عوامی بنیادوں پر اُبھری اور خالص سیاسی و معاشی نظریات نے بڑی تیزی سے اسے مقبول بنا دیا۔ یہ واحد سیاسی جماعت تھی جومذہب کی بیساکھی کے بغیر خاص و عام میں قابلِ قبول ٹھہری۔ جلسوں میں سوشلسٹ انقلاب کے نعرے لگائے جاتے اور ساتھ یہ بھی کہا جاتا کہ پیپلز پارٹی انتخابی نہیں بلکہ انقلابی پارٹی ہے ۔ پیپلز پارٹی نے قومی شعور کی جوت جگائی، مظلوموں اور بے نواؤں کو قوتِ گویائی دی اور آدھا مُلک نکل جانے کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے عالمی سطح پر پاکستان کو بلند مقام دلوانے میں اپنی فہم و فراست اور سیاسی ادراک کا مثالی مظاہرہ کیا ۔ بھٹو زندہ رہا تو عظیم اورچلا گیا تو جیالے ” آج بھی بھٹو زندہ ہے ”کے نعرے سے متحرک ہیں۔ پھانسی کے بعد وہ ایک خوف تھا کہ نوے دن سے نوے ماہ تک انتخابات نہ کروا سکے اور پھر غیر جماعتی انتخاب کا ڈھونگ بھی محض ڈر کا نتیجہ تھا ،ورنہ ایسا انتخاب بھلا کیسی جمہوریت کو جنم دے سکتا ہے۔ پارٹی کے کارکنوں کی طویل با مشقت قیدیں، کوڑے، نظر بندیاں، قیادت کی جلا وطنی اور بھٹو خاندان کی کردار کشی اور قتل و غارت کے باوجود پارٹی قائم رہی۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کہ جیتے جی اپنی کامیابی اور عوامی پذیرائی سے بھٹو قدرے مغرور ہوئے اور مخالف سیاسی رہنماؤں کی تضحیک کے ساتھ ان پر سختی یا انتقامی کاروائی کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹومسلسل کہتی رہیں کہ بھٹو کو دُنیا کی ایک بڑی طاقت نے مار ا ہے۔ بھٹو خاندان پر عتاب نازل رہا،بھٹو کے اقتدارپرست ساتھی پارٹی چھوڑ گئے، سرمایہ دار تاجروں نے پیپلز پارٹی کے خلاف محاذ کھڑے کیے اور مُلک کے اندر ہونے والے تشدد کے واقعات میں پارٹی کے کارکنوں کو ملوث کیا گیا۔ ان تمام عوامل سے ہٹ کر جس مقدمہ کے تحت بھٹو کو پھانسی دی گئی، قانون دانوں نے آج تک اس کا حوالہ کسی عدالت میں فوجداری مقدمات کے دوران نہیں دیا۔ جب بے نظیر بھٹو امریکہ سے لاہور پہنچی تو لاکھوں لوگوں نے استقبال کیا۔ اُنہوں نے گالم گلوچ اور والد کا انتقام لینے کی بجائے جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا۔ ان کی آمد، جلسے جلسوںاور اقتدار کے کئی پہلو غور طلب ہیں ۔ بھٹو مرحوم نے جب سیاسی سفر شروع کیا تو ہر مکتبہ فکر کے دانشور ساتھ تھے مگر بے نظیر کے ساتھ ایسا نہ تھا۔ ان کے ارد گرد بڑے بڑے موقع پرستوں نے ایک سنگین حصار قائم کیا اور مخلص کارکن پیچھے دھکیل دئیے گئے۔ پیپلزپارٹی کے حامی اور کارکنوں کی اکثریت نظریاتی تضاد کے اُلجھاؤ میں پھنسے رہے۔ سیاسی شعور ، مُساوات اور اخوت کا درس دینے والی پارٹی کی مقبولیت کیسے کم ہوتی گئی ، ترقی پسند فکر اور نظریاتی منشور سے مکمل وابستگی کیوں نہ رہی؟ یقیناً اس حوالہ سے دو آراء کا امکان موجود ہے۔ ہاں یہ اس سیاسی تربیت کا نتیجہ ضرور ہے کہ سختیاں جھیلنے کے باوجود پارٹی پُر امن رہی اور مکالمہ بند نہیں کیا۔
تحریک انصاف کی منتخب حکومت قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اقتدار سے ہٹ گئی۔ پارٹی کے قائدین ، کارکنان اور عوام کی ایک اکثریت اسے مختلف سازشوں کا نتیجہ سمجھتی ہے۔ امریکی سازش سے لے کر اسٹیبلیشمنٹ کی ناراضی اور ارکان اسمبلی کی خرید وفروخت کا بیانیہ ہی اب تک سامنے آرہا ہے۔ ہر بدلتے بیانیہ اور اس کی تردید میں کس قدر سچائی ہے ، یہ ایک الگ بحث ہے مگر جو جمہوری طریقہ اختیار کیا گیا اسپر کوئی دوسری رائے نہیںہے کہ تحریک انصاف اسمبلی میں بیٹھ کر اپنے جمہوری حق کو اس طریقہ پہ بروئے کار لاتے ہوئے دوبارہ اقتدار حاصل کر سکتی ہے ۔ تحریک انصاف کے قائد اپنی معزولی کے بعد زیادہ مقبول ہوئے اور ان کی عوامی پذیرائی میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ حیرانی یہ ہے کہ اس سے قبل ماضی قریب میں پاکستان کے وزرائے اعظم کسی قانونی اور سیاسی جواز کے بغیر معزول ہوئے اور وہ خاموشی سے چلے گئے۔ عوام نے ان غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے خلاف کبھی احتجاج نہ کیا جبکہ مروجہ اور قابل عمل جمہوری انداز سے ہٹائے گئے وزیر اعظم کے حق میں ایسا انتشار پیدا کر دیا کہ جس نے جمہوریت اور تمام سیاسی جماعتوں بشمول حکومت کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کی کا میابی اور پذیرائی کا راز کیا ہے ؟اُنہوں نے وہ کون سی حکمت ِ عملی اختیار کی کہ نوجوان،بوڑھے اور خواتین اب بھی کھیل اور سماجی میدان میں شہرت کے باعث ان کے دعویٰ باندھنے، مخالفین کو کھری کھری سنانے اور موقع کی مناسبت سے ہر نئی بات کو کسی تحقیق کے بغیر سچ مان لیتے ہیں۔ خان صاحب نے پہلے دن سے نوجوانوں کو اپنے عقیدت مندوں کی فہرست میں شامل کرنے کا ہدف سامنے رکھا۔ انسان اپنی جوانی میں آرزئوں،تمنائوں،امیدوں اور باغیانہ روش سے لبریز ہوتا ہے۔ اس نسل کو خواب اور سراب دکھائے گئے۔ مُلک میںجاری سیاسی اور انتظامی نظام کے خلاف غیر حقیقی مگر پُرکشش نعروں سے عوامی جذبات اور احساسات کو بھڑکایا گیا۔ معزولی کے بعد اب لانگ مارچ جسے آزادی کا نام دے کر خان صاحب ایک بار پھر نئے پاکستان کی تلاش میں ہیں مگر اس کے خد وخال ابھی واضح نہیں ہیں۔ اہل سیاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ آگے بڑھیں اور جمہوریت کے خلاف مائل حالات کا سیاسی سد باب کریں۔

مزید پڑھیں:  سنہری موقع سے ذمہ داری کے ساتھ استفادے کی ضرورت