سرکاری نرخنامہ ‘تباہ حال تعلیم

مہنگائی سے عوام کس قدرتنگ آچکے ہیں اس کے اعادے کی ضرورت نہیں عوام کا ہر طبقہ خاص طور پر تنخواہ دار اور دیہاڑی دار طبقہ کی تو کمر دوہری ہو گئی ہے وقت بدلتا ہے حکومتیں بدل گئیں مگر مہنگائی کی رفتار میں کمی نہیں آتی اور آمدنی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے باعث بڑھتی تو نہیں گھٹتی ضرور ہے ۔ انتظامیہ کو دہائی بھی بیکار ہے لاحاصل ہے لیکن ایک قاری نے مختلف اشیاء کے سرکار ی نرخناموں کی تین فہرستیں بھیج کر سوال کیا ہے کہ انتظامیہ کو اس تکلف کی کیا ضرورت ہے جب اس پر عملدرآمد ہو نہیں رہا ہے اور انتظامیہ بے بسی وبے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہے تو پھر کاغذ کے ان پرزوں کو ضائع کرنے کی ضرورت ہی کیاہے جب عوام الناس کو گرانفروشوں اور ناجائز منافع خوروں کے رحم و کرم پر چھوڑنا ہی ہے توپھر اس تکلف کی بھلا ضرورت ہی کیا ہے عوام ویسے بھی لٹ رہے ہیں سرکاری نرخنامہ جاری کرکے اور نہیں انتظامیہ خوداپنے آپ ہی کی توہین کی مرتکب ہو رہی ہے اس طرح کے دیگر سخت خیالات کا اظہار مراسلے میں شامل ہے بعض اشاعت اور لکھنے کے بھی قابل نہیں مراسلہ نگار پوچھتے ہیں کہ عوام کو حقیقی آزادی دلانے والوں کی خیبر پختونخوا پر جب اپنی حکومت ہے تو عوام کو ان لٹیروں سے نجات دلانے کے لئے قدم کیوں نہیں اٹھایا جاتا پہلے ان چھوٹے لٹیروں کی خبر لی جائے اس کے بعد حقیقی آزادی کے لئے اسلام آباد کا رخ کیا جائے یقین جانیں خیبر پختونخوا کی حکومت عوام کو مطلوب ”آزادی”دینے میں کامیاب ہوجائے تو خوشگوار تجربے سے دوچار عوام کا جم غفیر خود بخود اسلام آباد کی طرف ان کے ہمراہ چل پڑے گا میرے خیال میں مراسلہ نگار نے خیبر پختونخوا حکومت کو اس کی ذمہ داری کا احسن انداز میں احساس بھی دلایا ہے اور یہ بہت بڑا چیلنج بھی ہے مراسلہ نگار نے کوئی غیر حقیقی یا سیاسی مطالبہ بھی نہیں کیا بلکہ اس سے ہر کسی کا اتفاق ہوگا عوام کی نبض کیا بتا رہی ہے ‘ عوام کیا چاہتے ہیں ‘حکومت کو کیا کرنا چاہئے کوئی امر پوشیدہ نہیں اس کی طرف توجہ دلانے کی بھی حاجت نہیں حکومت کو صورتحال کا بخوبی علم ہے بس کرنے کا کام یہ ہے کہ کم از کم عوام کی تسلی و تشفی کے لئے انتظامیہ اس چیلنج کو تو قبول کرے یہ کوئی بڑا چیلنج بھی نہیں کہ جب حکومت کی طرف سے نرخنامہ جاری ہوتاہے تو پھر اس پر عملدرآمد میں کیا امر مانع ہو سکتا ہے سوائے اس کے کہ انتظامیہ سوئی رہے یا پھر ملی بھگت چشم پوشی اور حصے کی گھر بیٹھے وصولی ہو اور عوام کوا ن عناصرکے رحم و کرم پرچھوڑ دیا جائے ۔ مہنگائی عام آدمی کا سنگین مسئلہ ہے اس کا احساس و ادراک محلات میں بیٹھ کر عیش کرنے اور حکومت کرنے والوں کو نہیں ہوسکتا ان کو تو معلوم بھی نہیں ہوگا کہ آٹا کتنے روپے کا سیر ملتا ہے ۔ اتفاق سے اس برقی پیغام کے ساتھ ہی ملکی سیاست و معاملات بارے اسلامیہ کالج کے شعبہ قانون کے طالب علم اعتصام اللہ خان کا واٹس ایپ پیغام سامنے آیا وہ لکھتے ہیں۔
وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک ایسا جمہوری ملک ہے جس میں حکمران دن بہ دن ترقی کرتے ہوئے اور عوام خوار و ذلیل ہوتے ہوئے نظر آرہے ہے ۔ اعلیٰ منصب پر بیٹھنے سے پہلے کوئی اپنے آپ کو خادم اعلیٰ تو کوئی اپنے آپ کو انصاف اور کرپشن فری پاکستان کا واحد سہارا سمجھتا ہے۔ کوئی روٹی، کپڑا، مکان فراہم کرنے والا تو کوئی اپنے آپ کو سچا مسلمان اور اسلام کا واحد داعی ٹھہراتا ہے۔ لیکن پھر جب وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھ جائے تو خادم اعلیٰ دشمن اعلیٰ ‘انصاف اور کرپشن فری پاکستان والا نا انصاف اور کرپشن سے بھرپور پاکستان والا بن جاتا ہے ۔ روٹی’ کپڑا’ مکان والے عوام سے یہ تینوں چھین لے جاتے ہیں۔ اسلام کے داعی اسلام کے ٹھیکیدار بن جاتے ہیں اور سب کچھ بھول جاتے ہیں ۔ وہ فیصلے کر جاتے ہیں جو عوام کی برداشت اور بس سے باہر ہوتی ہیں۔
حسن اتفاق اگلاواٹس ایپ بھی اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور ہی کے ایک اور طالب علم ریحان احمد کا ہے اس کی حقیقت اور صداقت پر اس لئے تھوڑا سا عدم اطمینان اس لئے ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پیغام کا حوالہ دیا ہے لیکن بہرحال یہ کوئی الزام پرمبنی امر نہیں اور اس طرح ہونا بھی کوئی بعید نہیں کیونکہ قبل ازیں اسی کالم میں وزٹنگ فیکلٹی اور سرکاری جامعات کالجوں اور سکولوں میں سٹاف کی کمی کے حوالے سے وقتاً فوقتاً شکایات آتی رہی ہیں۔بہرحال واٹس پیغام ہے کہ میں آپ کی توجہ ایک بڑے علاقائی مسئلے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ گورنمنٹ ڈگری کالج تحصیل تخت نصرتی ضلع کرک کے پرنسپل ڈاکٹر اجمل بصر صاحب نے حالیہ سوشل میڈیا پر جاری کئے گئے ایک پیغام میں کہا ہے کہ اسٹاف ممبرز کی کمی کی وجہ سے ہم کسی بھی ڈیپارٹمنٹ میں نئے طلبہ کو بی ایس پروگرام میں داخلہ نہیں دے سکتے ۔ یاد رہے کہ یہ گورنمنٹ کالج سینکڑوں والدین اور غریب بچوںکی واحد امید ہے۔حکام بالا کی توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کرانا مطلوب ہے ۔دریں اثناء کرک ہی سے صدیق مجبور خٹک کا بھی اسی سے ملتا جلتا واٹس ایپ ملاحظہ ہو یہ جو تعلیم کے ساتھ مذاق شروع ہے جگہ جگہ دیواروں پر سوشل میڈیا پرنٹ میڈیا پر مختلف یونیورسٹیوں کے ساتھ الحاق کے نام پر مختلف سبجیکٹ میں ایم اے کی ڈگریاں ہول سیل ریٹ پر فروخت ہو رہی ہیں یہ سب کچھ ایچ ای سی براہ کرم کچھ سد باب کیاجائے۔
میرے خیال میں اس ضمن میں مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں سوائے اس کے کہ ہمارے بزرجمہروں کی اولین ترجیح تعلیم نہیں بلکہ آخری ترجیح بھی نہیں کیونکہ ترجیح اولین ہو یا آخری اس پرتھوڑی بہت توجہ دی جاتی ہے اور اگر تعلیم واقعی ترجیحات کی فہرست میں شامل ہوتی تو اس شعبے کا یہ حال نہ ہوتا پھر بھی تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے کہ تعلیم حکمرانوں کی ترجیحات میں سرفہرست ہے شاید حکمرانوں کو ترجیح کا مطلب نہیں معلوم حالانکہ اس کا مطلب سمجھنا بڑا آسان ہے وہ جو ڈیجیٹل کھلونے کو وہ کھیلنے کے لئے استعمال کرتے ہیں اس پر ترجیح اور سرفہرست لکھ کر گوگل سے پوچھیں تو یہ بے جاں و بے زباں آلہ سچ سچ بتا دے گا اور سمجھا بھی دے گا کہ اس کا مطلب و مفہوم کیا ہے ہم اگربتائیں تو شاید مبالغہ معلوم ہو۔
قارئین اپنے پیغامات 03379750639 پر واٹس ایپ ‘ کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  شہر کے بڑے ہسپتالوں میں ڈسپلن کا فقدان