مشرقیات

ڈالر کہاں سے آئیں گے یہ اپنے خزانچی بتا رہے ہیں تازہ فرمان ہے کہ ایک دوست ملک سے تین ارب ڈالر ملنے والے ہیں جس شہد بھرے لہجے میں انہوں نے ارب شریف کا ذکر کیا ہے اس سے ہمیں دوست بھی عرب شریف لگے ہیں۔کہنے والوں کے بقول ہمارے خزانچی بڑی شدت سے فٹ بال کے ورلڈکپ کے خاتمے کا انتظار بھی کر رہے ہیں تب وہ دوڑے دوڑے دوحہ جائیں گے۔قطری شہزادوں کے پاکستان میں شکار سیزن کا وقت بھی ہوا چاہتاہے بہرحال شکار یوں کی مرضی جب چاہیں آئیں فی الحال تو ہم اس حسا ب کتاب میںپڑے ہوئے ہیں کہ اپنے قطری شہزادوں نے فٹ بال کے عالمی کپ سے کتنے ارب ڈالر کمائے ہیں اور ان سے وہ زکوة نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا نہیں؟عرب پتیوں کی سخاوت اپنی جگہ مگر جو معیشت کے ماہر ہیں وہ کہہ رہے ہیں چاہے جتنی بھی مفت کی امداد مل جائے کوئی ملک تب تک پٹڑی پر نہیں چڑھتا جب تک وہ دنیاکو کچھ دینے کے قابل نہیں بنتا یعنی دنیا کے لیے ہم نے کماء پوت بننا ہے تب ہی ہماری معیشت میں جان پڑے گی ،اب سوال یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم کو کون کون کتنے ڈالر دینے کو تیار ہے سوال یہ پید ا ہوا ہے کہ ہم نے کب کچھ ایسا کرنا ہے جو ہمیں دنیاکے لیے ناگزیر بنا دے۔اپنے ہاں کے تمام شعبوں کا جائزہ لیں ،زرعی شعبہ اس میں سب سے بڑا تھا اس شعبے پر اتنے بڑے بڑے زمینداروں اور جاگیرداروںکا قبضہ ہے جو اپنے مزارعوں کو ہلکان کر کے ان کے خون پسینے سے اپنے لیے عیش وعشرت کاسامان کرتے ہیں ،یہ لوگ نسل درنسل لاکھوں لوگوں کو اپنا غلام بنائے ہوئے ہیں یوں تعلیم وتربیت سے عاری یہ مخلوق چند لوگوں کے لیے زرعی پیداوار پیدا کرنے کا باعث تو بنتی ہے تاہم ملک وقوم پر بوجھ ہی بنی ہوتی ہے ان کے گھروں میں خوشحالی کا چراغ کبھی جلتا ہی نہیں ہے،اسی وجہ سے یہ شعبہ ترقی نہیںکر رہا اور پیداوار زیادہ ہونے کی بجائے کم ہوتی جارہی ہے،ایسے ہی لاکھوں لوگوںکو بے گار میں جکڑ کر رکھا گیا ہے جو ملک وقوم کی بجائے چند لوگوں کے فوائد کے لیے کام کر رہے ہیں۔بچوں سے جبری مشقت وغیرہ کے ذریعے لاکھوں مستقبل کے معمار ہم نے دائو پر لگائے ہوئے ہیں۔ایسے میں ایک تعلیم یافتہ قوم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور ان پڑھ بہرحال اس ہنر مند کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے جو تعلیم کے زیور سے مالا مال ہوتے ہیں۔دنیا میںاسی تعلیم کی مانگ ہے اور ہم نے تعلیم کے میدان میں بہرحال وہ جھنڈے نہیں گاڑے کہ دنیا ہماری طرف متوجہ ہو،اس لیے قوموں کی صف میں ہم بہت پیچھے کہیں کھڑے ہیں جہاں ارب پتی کچھ بانٹنے لگیں تو ہم پچھلی صف سے نکل کر ان کے سامنے جھولی پھیلا لیتے ہیںکیا جھولی پھیلانے سے پہلے جو کچھ ملا اس سے ہمارے مسائل حل ہوئے تو پھر آئندہ کیسے ہوں گے؟

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا