سیاست میں کاجل کی ریل پیل

عالم اسلام میں 16دسمبر 1971 تاریخ کا تاریک ترین اور الم ناک دن قرار پاتا ہے اس روز دنیا نے دیکھا کہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریا ست کے مشرقی کمان کے کمانڈر نے بھارت کے کمانڈر جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے ہتھیا ر ڈال کر اسلا می ریاست پاکستان کے سب سے بڑی آبادی والے حصے کو بھارت کے حوالے کر کے ریاست سے جدا کردیا ۔ سابق آرمی چیف جنر ل قمر جا وید باوجوہ نے اپنی سبکدوشی سے چند روز پہلے اپنے ایک خطاب میں فرمایا کہ مشرقی پاکستان کا سقوط فوجی نا کا می نہیں بلکہ سیاسی ناکا می تھی ، ایک حد تک قمر جا وید باجوہ سے اتفا ق کیا جاسکتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں یقینی طور پر پاکستا ن کی فوج کو ناکا می کا سامنا نہیں تھا ، جنرل (ر) قمر جا وید باجوہ نے ناکامی کی وجو ہ سیا سی بتائی ہیں ، جب ذوالفقارعلی بھٹو مر حوم جنرل یحییٰ کے وزیرخارجہ کی حیثیت سے چین ایک وفد لے کرگئے تھے اس وقت مشرقی پا کستان سلگ رہا تھا تب چین کے چیئرمین ماؤزتنگ نے پا کستان جو اس لمحہ صف آرا ء تھا کہا تھا کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ مشرقی پاکستا ن کا سیاسی حل نکالے ، گویا ایک صادق دوست نے صائب مشورہ دیا تھا جسے سن کر سب نے جھولی میں ڈالنے کی بجائے جھولی سے جھاڑدیا اگر اس وقت ایک صادق دوست کی بات ما ن لی جاتی تو آج یہ دیکھنے کا نہ ہو تے ، سچ تویہ ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان نہ فوجی ناکامی اورنہ سیاسی نا کامی تھا بلکہ یہ ایک گہری ساز ش تھی ، شیخ مجیب الرّحما ن کتنا بڑا غدار تھا اس کی تصدیق شیخ مجیب الرّحمان کے ساتھ زندان میں دن گزارنے والے سیکو رٹی افسر انا ر خان کے انٹرویو سے ہو جا تا ہے جوانھوں نے کئی سال پہلے دنیاٹی وی کو دیا تھا ، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شیخ مجیب الرّحما ن محب وطن تھا ، سقوط ڈھاکا کہ بارے میں کئی ایک شواہد بھی گہر ی ساز ش کی نشاندہی کرتے ہیں کہ شیخ مجیب الرّحما ن سمیت کئی سیاسی جما عتیں مشرقی پا کستان اور مغربی پاکستان میں وجو د رکھتی تھیں ، تاہم جو جماعتیں کسی ایک علا قہ میں موجو د نہیںتھیں تو اس کی وجہ ان کی علا قائی تنظیم کے معاملات تھے جیسا کہ نیشنل عوامی پا رٹی کی شاخیں پنجاب ، سند ھ اور مشرقی پاکستان میں موجو د تو تھیں مگر ان کو گہر ی پزیر ائی حاصل نہیں تھی اسی طر ح بزرگ رہنما نورالا مین کی جما عت کا حال یہ تھاکہ وہ کئی صوبو ں میں غیر مقبول ہونے کے باوجو د وہا ں ان کی تنظیم کا وجود کسی طور مو جود ضرور تھامگر پی پی وہ واحد جماعت تھی جس کی کوئی شاخ یا دفتر مشرقی پاکستان میں قائم نہیںکیا گیا ، شیخ مجیب الّرحما ن کی پا رٹی عوامی لیگ نے صوبہ کے پی کے ، پنجا ب اور سندھ میں 1971کے انتخابات میں اپنے امیدوار بھی کھڑے کیے تھے ، اس کے باوجو د یہ درست نہیںکہ سقوط مشرقی پاکستان سیاسی ناکامی تھی ، کیو ںکہ کوئی سیا سی ایشو نہ تھا بلکہ صاف عمل یہ تھا کہ اقتدار اکثریتی جماعت کو سازشیو ں نے منتقل نہیںکیا کیو ںکہ وہ ایک سنگین بحران پیداکر نا چاہتے تھے تاکہ اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کر سکیں جس میںوہ کا میاب ہوئے سید ھی سی بات تھی جس پارٹی کو اکثریت حاصل تھی اقتدار اس کو منتقل کر دیا جا تا ، وہ پارٹی جنرل یحیٰ کے دئیے گئے لیگل فریم ورک آرڈرکے تحت آئین تشکیل دیتی اگر لیگل فریم ورک آرڈر کی خلاف ورزی ہو تی تو جنرل یحییٰ کی حکومت کو یہ اختیار تھا کہ وہ اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کرائے ۔
اب خبر آئی ہے کہ عمر ان خان کی نااہلی کے بارے میں ایک مقدمے کی سما عت 20دسمبر کو ہو نے جا رہی ہے قبل ازیں یہ مقدمہ 25دسمبر کو زیر سماعت ہوتا پاکستان کے ایک نجی ٹی وی نے جس کو عمر ان خان کا ترجمان کہا جاتاہے یہ خبر دی ہے کہ جس میںصاف طور پر نہیں بتایا گیا ہے کہ یہ مقدمہ ٹیر یا ن سے متعلق ہے ۔ ٹیریا ن کا قضیہ کا فی عرصہ سے منظر عام پر ہے مگر کسی کل سیدھا نہیں بیٹھ پا رہا ہے ، اس بارے میں سب سے پہلے امریکا کے اردو اور انگریزی زبان میں شائع ہونے والے اخبار پاکستان لنک میں سیٹاوائٹ کا انٹڑویو انکشاف ہو ا تھا، اس انٹرویو کی اشاعت کے کچھ روز بعدہی سیٹاوائٹ نے کیلی فورنیا کی عدالت میں عمر ان خان کے پدر حق ہو نے کے بارے میں مقدمہ بھی دائر کر دیا تھا ، عدالت نے ڈین این اے ٹیسٹ کے لیے عمر ان احمدخان نیازی سے خون طلب کیا تھاعمر ان خان نے لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے اپناخون دینے سے انکار کردیا تھا ،ابھی حال میں پا کستان لنک اخبار کے سابق ایڈیٹر ریا ض حسین نے اپنے ایک انٹرویو میں انکشا ف کیا کہ سیٹاوائٹ کے مطا بق ٹیریا ن کا نام بھی عمر ان خان نے ہی تجویز کیا تھا ، ٹیر یان کا مطلب چیتا ہے ٹیریان کے بقول عمران خان نے ان سے کہا تھا کہ اس کا نام ٹیریا ن رکھاجائے ، کیوںکہ وہ چیتا ان کو سب جا نوروںمیںپسند ہے ، چنانچہ سیٹاوائٹ نے عمر ان کی خوشنودی کے لیے اپنے گھرمیں چیتے کی ایک بڑی سی تصویر بھی آویزا ں کر رکھی تھی ، کہا جا تا ہے کہ چیتا (ٹائیگر ) ان کواس قدرپسند ہے کہ وہ جس سے بھی انس و پیا ر رکھتے ہیں اس کو ٹائیگر کانام دیتے ہیں جیساکہ انھوںنے بنی گالہ میں میں اپنے کتے کا نا م بھی ٹائیگررکھا ہو ا ہے علا وہ ازیں وہ اپنے کا رکنوںکا بھی ذکر ٹائیگر کے نا م سے کرتے ہیںانھو ں نے کچھ عرصہ قبل پانچ لاکھ یو تھئیوں پر مشتمل ٹائیگر فورس بنا نے کا اعلا ن کیا تھا ، اس
میںبھی ان کو اپنے سابق اعلا نا ت اور منصوبوںکی طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔عمر ان احمد خان سے جمائما کی شادی سے تین سال قبل پید اہوئی تھی ، اخبار پاکستان کے ایڈیٹرکے بقول سیٹاوائٹ کو عمر ان خان کے شادی کے بارے میںسب علم تھا لیکن انھوں نے اس بارے میں کبھی کوئی ردعمل نہیںدیا ، جب ٹیریا ن پیدا ہوئی تو اس کے چند روز بعد سیٹاوائٹ کے والد لا رڈ گاردن وائٹ اپنی نواسی کو دیکھنے اسپتال گئے جب ان کی نظر ٹیریا ن پر پڑی تو وہ بچی کے قریب نہیں گئے بلکہ کچھ فاصلے پر ہی کھڑے ہوگئے اور بچی پر گہر ی نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ گوری نہیں ہے ۔ مطلب یہ نہیں تھا کہ اس کارنگ سیاہ ہے بلکہ گوری اور میم پہلے زمانے میں مغرب سے تعلق رکھنے والی خواتین و بچیوں کے بارے میں کہا جا تا تھا ، مر د کو گورا کہا جا تا تھا یعنی نا نا نے اس کو ایشیائی قرار دیا اور وہ بچی کو دور سے دیکھ کر اور چند لمحہ ہی بعد واپس پلٹ گئے ، ان ریماکس پر سیٹاوائٹ کو قدرے دکھ بھی ہو اجس کا اظہار انھو ں نے اپنے کئی انٹریوز میںکیا ۔

مزید پڑھیں:  بے جے پی کی''کیموفلاج''حکمت عملی